خفیہ دستاویزات افشا ہونے پر امریکہ کی سبکی
واشنگٹن اپنے اتحادیوں کو یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ ان کے مفادات کا خیال رکھے گا۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ امریکہ دستاویزات افشا ہونے کے معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔
یوکرین کے فضائی دفاع سے لے کر اسرائیل کی جاسوس ایجنسی موساد تک نیز چین، مشرق وسطیٰ اور افریقہ وغیرہ سے متعلق امور کی تفصیلات پر مشتمل خفیہ دستاویزات کے آن لائن شائع ہوجانے پر امریکہ مشکل میں پڑ گیا ہے اور امریکی حکام اس افشا کے مآخذ کا پتہ لگانے اور اپنے اتحادیوں کو مطمئن کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے یوکرین کے اپنے ہم مناصب سے منگل کے روز بات کی۔ بلنکن نے بعد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "ہم نے گزشتہ دنوں اعلیٰ سطح پر اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کی ہے، جس میں انہیں انٹیلیجنس کے تحفظ کے لیے اپنے عزائم کے متعلق یقین دہانی بھی شامل ہے۔"
بلنکن نے کہا کہ انہوں نے اپنے یوکرینی ہم منصب دیمترو کولیبا سے بات کی ہے اور "یوکرین کے لیے اس کی علاقائی سالمیت، اس کی خودمختاری، اس کی آزادی کے دفاع کی کوششوں کے لیے امریکہ کی جانب سے مستقل حمایت کا اعادہ کیا۔"
افشا ہونے والے ان خفیہ دستاویزات میں روسی افواج کے خلاف یوکرین کی جنگ کے متعلق خفیہ معلومات کے علاوہ امریکی اتحادیوں کے بارے میں خفیہ جائزے بھی شامل ہیں۔ ان میں کچھ انتہائی حساس نوعیت کے ہیں، جن میں یوکرین کی فوجی صلاحیتوں اور کمیوں کا ذکر ہے۔ امریکی محکمہ انصاف نے دستاویزات کے افشا کے جرم کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
دستاویزات کا افشا ہونا 'انتہائی افسوس ناک'
پریس کانفرنس میں بلنکن کے ساتھ موجود لائیڈ آسٹن نے بتایا کہ انہوں نے بھی یوکرین کے اپنے ہم منصب اولیکسی زیرنکوف سے بات کی ہے۔ آسٹن کا کہنا تھا، "وہ اور قیادت اس معاملے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔" انہوں نے دعویٰ کیا کہ"اس کام کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے ان کے پاس وافرصلاحیت موجود ہے۔"
امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ، "ہم اس وقت تک ایک ایک کونہ چھان ماریں گے اور کوئی کسر باقی نہیں اٹھارکھیں گے جب تک کہ ہمیں اس کے مآخذ اور اس کی مکمل نوعیت کا پتہ نہیں چل جاتا ہے۔" دریں اثنا امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے اس افشا کو" انتہائی بدقسمتی" قرار دیا۔ انہوں نے تاہم اس حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں اور کہا کہ پنٹاگون اور محکمہ انصاف کی جانب سے پوری شدت کے ساتھ تحقیقات جاری ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ بیشتر دستاویزات من گھڑت ہیں
دستاویزات کی درجنوں تصویریں، جن میں سے کچھ اسرائیل اور جنوبی کوریا سمیت اتحادیوں اور شراکت داروں کی امریکہ کی جانب سے جاسوسی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں، ٹویٹر، ٹیلی گرام، ڈسکارڈ اور دیگر ویب سائٹوں پر گردش کر رہی ہیں۔ بہت ساری دستاویزات اب سوشل میڈیا سائٹس پر دستیاب نہیں ہے، جہاں پہ پہلی مرتبہ نمودار ہوئی تھیں اور امریکہ انہیں مبینہ طورپر ہٹانے کے لیے مسلسل کام کر رہا ہے۔
آسٹن نے افشا ہونے والی دستاویزات پر تبادلہ خیال کے لیے جنوبی کوریا کے وزیر دفاع لی جونگ سوپ سے بات کی۔ ان افشا دستاویزات میں مبینہ طور پرسیول کی امریکی نگرانی کی تفصیلات تھیں اور یوکرین کو براہ راست گولہ بارود فراہم کرنے کے متعلق جنوبی کوریا کے تحفظات کا انکشاف ہوا تھا۔
قومی سلامتی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کم تائے ہائیو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ دونوں دفاعی سربراہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دستاویزات کی "کافی بڑی تعداد "من گھڑت ہے۔ ان دستاویزات کے افشا کے مضمرات کافی اہم ہوسکتے ہیں اور ممکنہ طورپر امریکی انٹیلیجنس ذرائع کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔کیونکہ یہ ملک کے دشمنوں کو قیمتی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
روس نے کیا کہا؟
خفیہ دستاویزات کی حالیہ لیک کو سال 2013 میں وکی لیکس ویب سائٹ پر 7 لاکھ سے زائد دستاویزات، ویڈیوز، سفارتی کیبلز سامنے آنے کے بعد سکیورٹی کی سب سے سنگین خلاف ورزی قرار دیا جارہا ہے۔ امریکی حکام نے کہا کہ تحقیقات اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں اور تحقیقات کرنے والوں نے اس لیک کے پیچھے روس نواز عناصر کے ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا۔
روس نے اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہر چیز کے لیے ہمیشہ کریملن کو مورد الزام ٹھہرانے کا عمومی رجحان ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف سے جب ان سے ان الزامات کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اس لیک کا ذمہ دار روس ہو سکتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ 'میں اس پرکوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔' ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ اور میں جانتے ہیں کہ حقیقت میں ہر چیز کا الزام روس پر ڈالنے کا رجحان ہے، یہ عام طور پر ایک بیماری ہے۔
امریکہ کی طرف سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی جاسوسی کرانے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں روسی ترجمان نے کہا کہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ " یہ حقیقت کہ امریکہ مختلف سربراہانِ مملکت کی جاسوسی کر رہا ہے، خاص طور پر یورپی دارالحکومتوں میں یہ ایک طویل عرصے سے بار بار سامنے آ رہا ہے، جس کی وجہ سے مختلف خطرناک حالات پیدا ہو رہے ہیں۔"
دریں اثنا جرمن چانسلر کی سوشل ڈیموکریٹس پارٹی کے رکن ہولگر بیکر، جو پارلیمان کی ڈیجیٹل امور کمیٹی کے رکن بھی ہیں، نے کہا کہ یہ افشا واشنگٹن کے لیے "زیادہ شرمندگی کا باعث" ہے۔ لیکن اس سے موجودہ تعلقات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ بیکر کا کہنا تھا کہ کچھ دستاویزات اصلی تھیں جب کہ دیگر کے ساتھ بظاہر "چھیڑ چھاڑ" کی گئی تھیں اور کچھ واضح نہیں تھیں کہ آیا وہ جعلی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "مجھے نہیں لگتا کہ اس سے جرمنی اور کییف کے دیگر اتحادیوں پر دباو بڑھے گا۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔