پاکستان میں گرجا گھروں پر حملوں سے امریکہ کو گہری تشویش

امریکہ نے پاکستان میں مبینہ توہین مذہب کے بعد گرجا گھروں کو جلانے کے واقعات کی مکمل انکوائری اور امن کی اپیل کی ہے۔ مشتعل ہجوم نے فیصل آباد میں ایک مسیحی بستی میں گرجا گھروں کو جلا دیا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

مشتعل ہجوم نے پاکستان کے فیصل آباد شہر کی جڑانوالہ تحصیل میں ایک مسیحی بستی میں توڑ پھوڑ کی اور گرجا گھروں کو جلا دیا۔ امریکہ نے پاکستان میں مبینہ توہین مذہب کی افواہوں کے بعد مسیحیوں کے گھروں پر حملوں اور گرجا گھروں کو جلانے کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کرانے کی اپیل کی ہے۔

پاکستان کے مشرقی صنعتی شہر فیصل آباد کی جڑانوالہ تحصیل میں بدھ کے روز قرآن کی مبینہ بے حرمتی کی افواہیں پھیلنے کے بعد سینکڑوں مسلمانوں نے ایک مسیحی بستی پر حملہ کردیا، وہاں توڑ پھوڑ کی اور گرجاگھروں کو جلادیا۔ اس واقعے کے بعد علاقے میں پولیس اور نیم فوجی دستے بڑی تعداد میں تعینات کردیے گئے ہیں جب کہ دو مسیحی نوجوانوں کے خلاف توہین مذہب کے دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔


امریکہ کا اظہار تشویش

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے بعد گرجا گھروں اور مسیحی برادری کے گھروں کو نقصان پہنچائے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکومت پر ان الزامات کی مکمل تحقیقات پر زور دیا ہے۔

ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران فیصل آباد واقعے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان واقعات پر "گہری تشویش "کا اظہار کرتے ہوئے "آزادی اظہار" کی حمایت کا اعادہ کیا۔ ویدانت پٹیل نے کہا، "پاکستان میں مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے ردعمل میں گرجا گھروں اور (مسیحی کمیونٹی کے) گھروں کو نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے ہمیں گہری تشویش ہے۔ ہم پر امن آزادی اظہار اور ہر ایک کے لیے مذہب اور عقیدے کی آزادی کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔"


انہوں نے مزید کہا کہ "ہم مذہبی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات کے حوالے سے ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔ تشدد یا تشدد کا خطرہ کبھی بھی اظہار رائے کی قابل قبول شکل نہیں ہے، اور ہم پاکستانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ ان الزامات کی مکمل تحقیقات کریں اور تمام ملوث افراد کے لیے پرسکون رہنے کا مطالبہ کریں۔"

معاملہ کیا تھا؟

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان ریسکیو سروس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ کسی نے یہ افواہ پھیلا دی کہ جڑانوالہ میں ایک مقامی مسیحی خاندان نے مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کی ہے۔ اس کے بعد سینکڑوں افراد پر مشتمل مذہبی شدت پسندوں نے بستی پر لاٹھیوں اور پتھروں سے حملہ کردیا۔ سوشل میڈیا پر شائع کیے جانے والی ویڈیوز میں گرجا گھروں کی عمارتوں سے آگ کے شعلے اور دھوئیں اٹھتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔


ریسکیو سروس کے ایک ترجمان رانا عمران جمیل نے بتایا کہ چار گرجا گھروں کو آگ لگا دی گئی تاہم کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کسی نے قرآن کے جلتے ہوئے صفحات کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی جس کے بعد یہ ہنگامہ شروع ہوا۔

مسیحی رہنماوں نے شکایت کی ہے کہ توڑ پھوڑ اور گرجا گھروں کو جلانے کی کارروائی پولیس کے سامنے ہوتی رہی لیکن اس نے حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ چرچ آف پاکستان کے صدر بشپ آزاد مارشل نے ایک بیان میں کہا کہ قرآن کی بے حرمتی کے جھوٹے الزامات عائد کرکے مسیحی افراد پر تشدد اور انہیں ہراساں کیا گیا ہے۔


نگراں وزیر اعظم کا ردعمل

سیاسی اور مذہبی رہنماوں نے جڑانوالہ واقعے کی سخت مذمت کی اور قصورواروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت پنجاب نے اس پورے واقعے کی اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم جاری کر دیا ہے۔ حکومت پنجاب کے ترجمان کا کہنا تھا کہ "سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے اندرونی امن کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔" انہوں نے مزید بتایا کہ ان واقعات میں ملوث 100سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جڑانوالہ سے آنے والے مناظر دیکھ کر میں ہل گیا ہوں... قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی گئی ہے اور حکومت پاکستان اپنے شہریوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ مسیحی برادری نے اپنا خون دے کر پاکستان کے قیام کے لیے ووٹ دیا اور ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے کیونکہ نہ تو اسلام اور نہ ہی آئین ایسی کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے۔


توہین مذہب، پاکستان میں ایک حساس مسئلہ

توہین مذہب پاکستان میں ہمیشہ سے ایک حساس مسئلہ رہا ہے، جہاں اسلام یا اسلام کی برگزیدہ شخصیات کی توہین کے لیے موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کا مبینہ طورپر اکثر غلط استعمال ہوتا رہتا ہے اور مسیحی اس کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔لیکن قانون میں موجود خامیوں کی وجہ سے قصور وار اکثر بچ جاتے ہیں۔ سیالکوٹ میں 3 دسمبر 2021 کو ایک سری لنکن شہری اور ایک فیکٹر ی میں جنرل منیجر کے طورپر کام کرنے والے پریانتھا کمارا کو توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کردیا گیا تھا۔

ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ میں 31 جولائی 2009 کو سات مسیحیوں کو زندہ جلانے اور 60 گھروں کو لوٹ کر آگ لگانے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس واقعے میں 17 نامزد اور 800 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، لیکن متاثرین آج تک انصاف نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں۔


لاہور کے علاقے جوزف کالونی میں سن 2013 میں توہین مذہب کے الزام پر مسیحی بستی جلائی گئی جس کے نتیجے میں سینکڑوں مسیحی افراد بے گھر ہو گئے تھے۔ اس واقعے میں ملوث 115 ملزمان کو ناکافی گواہوں اور عدم ثبوتوں کی بنا پر بری کر دیا گیا تھا۔ دریں اثنا، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ جڑانوالہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے حملوں کی تعداد اور اس کی شدت میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے اورریاست اپنی مذہبی اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔