جو دل نفرت سے بھرا رہے، وہ کوئی خوشی محسوس نہیں کر سکتا
امریکی شہری رابرٹ دُوبُوآ کو اس کے دانتوں کے نشانات کے باعث قاتل قرار دے دیا گیا تھا مگر اب پتا چلا کہ وہ بے قصور ہے۔ اس نے ایک ناکردہ جرم کی سزا کاٹی، انصاف کی غلطی اس کی زندگی کے سینتیس برس کھا گئی۔
رابرٹ دُوبُوآ ایک معصوم اور بے قصور شہری تھا مگر اسے ایک غلط عدالتی فیصلے کے تحت عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ اب جب کہ اسے 37 سال بعد رہا کر دیا گیا ہے، دُوبُوآ نے ریاست فلوریڈا میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ اس کے لیے بڑے سکون اور خوشی کی بات ہے کہ اسے رہائی مل گئی ہے اور اس میں اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر کوئی تلخی نہیں ہے۔
دُوبُوآ نے اس پریس کانفرنس میں جو باتیں کہیں، وہ کسی بھی حساس انسان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھیں۔ اس نے کہا، ''جو کوئی بھی اپنے دل میں نفرت لیے پھرتا ہے، وہ کوئی خوشی محسوس کر ہی نہیں سکتا۔‘‘ رابرٹ دُوبُوآ کی عمر اس وقت 55 برس ہے اور اس نے اپنی زندگی کے گزشتہ 37 برس جیل میں کاٹے ہیں۔
رہائی کے بعد پہلی خواہش
دُوبُوآ نے یارڈی کاؤنٹی کی جیل سے اپنی رہائی کے بعد کہا کہ اس کی ایک بڑی شدید خواہش تھی، جو اس نے جیل سے رہائی کے فوراﹰ بعد ہی پوری کر لی: ''میں نے سب سے پہلے اپنی والدہ کو گلے لگایا۔‘‘ رابرٹ دُوبُوآ کی رہائی حال ہی میں سامنے آنے والے ان ڈی این اے شواہد کی بنا پر ممکن ہوئی، جن کے مطابق وہ اس قتل کا مجرم تھا ہی نہیں، جس کی اسے سزا سنائی گئی تھی۔
اس امریکی شہری کے ساتھ ہونے والے زیادتی کی تفصیل یہ ہے کہ 1983ء میں امریکی ریاست فلوریڈا میں ٹیمپا کے مقام پر ایک 19 سالہ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اسے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کے بعد پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا تھا۔
دُوبُوآ کا المیہ یہ تھا کہ طب قانونی کے ماہرین کے اخذ کردہ نتائج کے مطابق اس کے دانتوں کے نشانات مقتولہ کے چہرے پر اس زخم سے مشابہت رکھتے تھے، جسے چہرے پر دانتوں سے کاٹے جانے کے نشانات قرار دے کر دُوبُوآ کو غلطی سے مجرم قرار دے دیا گیا تھا اور عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔
پہلے سزائے موت، پھر عمر قید
اس مقدمے میں عدالت نے پہلے رابرٹ دُوبُوآ کو سزائے موت سنائی، پھر یہ سزا عمر قید میں بدل دی گئی تھی۔ 2018ء میں ایک امریکی تنظیم کو اس طرف توجہ دینے کا موقع ملا کہ جن شواہد کو دُوبُوآ کو مجرم قرار دینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، وہ مشکوک تھے۔ اس تنظیم کا نام Innocence Project ہے اور یہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ایسے افراد کی مدد کرنے کی کوشش کرتی ہے، جن کے ساتھ ملکی عدلیہ انصاف کے بجائے ناانصافی کی مرتکب ہوئی ہو۔
پھر اسی ماہ کے اوائل میں دُوبُوآ کے مبینہ جرم کے حوالے سے ایک میڈیکو لیگل ٹیم کو ایسے شواہد دوبارہ مل گئے، جو ماضی میں استعمال نہیں کیے گئے تھے اور جنہیں غیر اہم سمجھ کر تلف کر دیا گیا تھا۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق 1983ء میں ایک 19 سالہ لڑکی کے قتل کے سلسلے میں طب قانونی کے ماہرین کو جو ڈی این اے شواہد ملے، وہ دو ایسے مردوں کی طرف اشارہ کرتے تھے، جن میں دُوبُوآ شامل ہی نہیں تھا۔
بہن کی امید جو کبھی نہ ٹوٹی
ان حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد ججوں نے دُوبُوآ کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔ اب اگلے ماہ ستمبر میں فلوریڈا ہی کی ایک ریاستی عدالت نئے سرے سے رابرٹ دُوبُوآ کے خلاف مقدمے کی سماعت کرے گی اور یوں اس کے خلاف ماضی میں سنایا گیا فیصلہ حتمی طور پر منسوخ کر دیا جائے گا۔
رابرٹ دُوبُوآ کی پریس کانفرنس کے دوران اس کی بہن ہیریئٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ اسے نہ جانے کس طرح لیکن ہمیشہ یہ یقین رہتا تھا کہ ایک دن اس کے بھائی کو رہائی مل جائے گی۔ ہیریئٹ نے کہا، ''میں کبھی بھی ناامید نہیں ہوئی تھی۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔