اقوام متحدہ سرکردہ طالبان رہنماؤں پر سفری پابندیوں پر ہنوز منقسم
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین پیر کے روز بھی اس بات پر متفق نہیں ہوسکے کہ افغانستان کے سرکردہ طالبان رہنماؤں کا سفری پابندیوں سے استشنیٰ جاری رکھا جائے یا نہیں۔
افغانستان کے موجودہ حکمراں طالبان کے 13 سرکردہ رہنماؤں کو سفری پابندیوں سے استشنیٰ حاصل ہے۔ دیگر ملکوں کے رہنماوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے ملاقات کے خاطر ان رہنماؤں کو حاصل استشنیٰ کی مستقل تجدید ہوتی رہتی ہے۔ حالانکہ سلامتی کونسل کی سن 2011 کی ایک قرارداد کے مطابق 135 طالبان رہنماؤں پر سفری پابندیاں عائد ہیں۔
طالبان کے13 رہنماؤں کو سفری پابندیوں سے حاصل استشنیٰ گزشتہ جمعے کے روز اس وقت ختم ہوگئی تھی جب آئرلینڈ نے اگلے ماہ کے لیے اس کی خود بخود تجدید کی مخالفت کی۔
سلامتی کونسل کے 15 اراکین پر مشتمل افغانستان پر پابندیوں سے متعلق کمیٹی نے جون میں طالبان کے دو وزراء کو استشنیٰ کی فہرست سے نکال دیا تھا۔ ان میں قائم مقام نائب وزیر تعلیم سید احمد شید خیل اور ہائر ایجوکیشن کے قائم مقام وزیر عبدالباقی بصیر اول شاہ، جنہیں عبدالباقی حقانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، شامل تھے۔ یہ کارروائی طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو مبینہ طورپر سلب کرنے کے خلاف جوابی اقدام کے طور پر کی گئی تھی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق متعدد مغربی ممالک سفری پابندیوں سے استشنیٰ کی فہرست کو مزید مختصر کرنا چاہتے ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ ایک برس قبل اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے وقت طالبان نےانسانی حقوق کو بحال کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں امریکہ نے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو ایک ڈرون حملے میں کابل میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے عسکریت پسند گروپوں کی پشت پناہی نہ کرنے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا
چین اور روس سفری پابندیوں سے استشنیٰ کے حق میں
چین اور روس نے سرکردہ طالبان رہنماوں کو سفری پابندیوں سے استشنیٰ کی فہرست کی مستقل تجدید کی حمایت کی ہے۔ سلامتی کونسل میں چین کے نمائندے نے گزشتہ ہفتے کہا تھا، "یہ استشنیٰ پہلے کی طرح ہی اب بھی ضروری ہے۔" انہوں نے کہا کہ طالبان رہنماؤں کے سفری معاملات کو انسانی حقوق سے منسلک کرنا "نقصان دہ" ثابت ہو سکتا ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے اور پھر پیر کے روز بھی سلامتی کونسل میں فریقین نے ان متعدد تجاویز کو مسترد کر دیا جن میں سفری پابندیوں سے استشنیٰ حاصل طالبان کے سرکردہ رہنماؤں کی تعداد کو کم کرنے یا پھر ان کے سفر کے مقامات کی تعداد کم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اس معاملے پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہنے کی امید ہے۔
طالبان رہنما فی الحال سفرنہیں کرسکیں گے
ذرائع کے مطابق جن طالبان رہنماؤں کو سفری پابندیوں سے استشنیٰ حاصل ہے، وہ اس وقت تک سفر نہیں کر سکیں گے جب تک کہ سلامتی کونسل میں اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہ ہوجائے۔
اس سے سب سے زیادہ پریشانی طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو ہوگی، جنہوں نے سفارتی بات چیت کے لیے حالیہ مہینوں کے دوران کئی مرتبہ قطر کے دورے کیے۔ متقی ان 13افراد میں شامل ہیں جنہیں استشنیٰ حاصل ہے۔
افغانستان وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے ہفتے کے روز ٹوئٹر پر ایک بیان میں سلامتی کونسل سے اپیل کی کہ"پابندیوں کو دباو ڈالنے کے آلہ کے طورپر استعمال نہ کرے" اور طالبان عہدیداروں کے خلاف عائد تمام پابندیوں کو ختم کیا جائے۔
ترجمان نے کہا، "اگر سفری پابندیوں میں توسیع کی جاتی ہے تو اس سے مذاکرات اور ربط کو فروغ کے بجائے دوری بڑھے گی، اور اس سے ہر حال میں پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔