’دنیا میں کم عمر دلہنوں کا سب سے بڑا گھر جنوبی ایشیا ہے‘
یونیسیف کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا دنیا میں کم عمر دلہنوں کا سب سے بڑا گھر ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے بڑھتے ہوئے مالی دباؤ کے باعث خاندان اپنی کم عمر بیٹیوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہوئے
اقوا م متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے مطابق اس خطے میں 290 ملین کم عمر یا چائلڈ دلہنیں ہیں، جو دنیا بھر میں موجود کم عمر دلہنوں کا 45 فیصد بنتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے میں ایک مرتبہ پھر اس رواج کو ختم کرنے کے لیے مزید کوششوں پر زور دیا ہے۔
یونیسیف کی جنوبی ایشیا کے لیے علاقائی ڈائریکٹر نوالا سکنر کا کہنا تھا، ''یہ حقیقت کہ دنیا میں کم عمری کی شادیوں کا سب سے زیادہ بوجھ جنوبی ایشیا کی بچیوں پر ہے، کسی صدمے سے کم نہیں ہے۔‘‘
یونیسیف کی علاقائی ڈائریکٹر کا اس تناظر میں مزید کہنا تھا، ''بچپن کی شادی لڑکیوں کو سیکھنے سے روک دیتی ہے، ان کی صحت اور تندرستی کو خطرے میں ڈالتی ہے اور یہ ان کے مستقبل سے سمجھوتہ ہے۔‘‘
ایجنسی کی اس نئی تحقیقی رپورٹ کی تیاری کے لیے بنگلہ دیش، بھارت اور نیپال کے سولہ مقامات پر کروائے گئے انٹرویوز اور مباحثے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ ان انٹرویوز سے پتہ چلا کہ کووڈ وبا کے دوران جب اسکولوں تک رسائی محدود بنائی گئی تو والدین نے بچیوں کی شادی کو بہترین آپشن سمجھا۔
خواتین کی شادی کی قانونی عمر نیپال میں 20، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں 18 جبکہ افغانستان میں 16 سال ہے۔ پاکستان میں بھی صوبہ سندھ کے علاوہ یہ 16 سال ہے۔ سندھ میں چند برس پہلے قانون سازی کرتے ہوئے لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر کم از کم 18 سال کر دی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے مطالعے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کورونا کے دوران خاندانوں کو مالی دباؤ کا سامنا تھا اور انہوں نے اپنی بیٹیوں کی کم عمری میں شادیاں کرنا مناسب سمجھا تاکہ گھر کے اخراجات کو کم کیا جا سکے۔
ایجنسی نے کہا کہ مباحثوں کے دوران کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے، جن ممکنہ اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے، ان میں غربت کا مقابلہ کرنے کے لیے سماجی تحفظ فراہم کرنا، ہر بچے کے تعلیم کے بنیادی حق کا تحفظ کرنا، قانون کو نافذ کرنے کے لیے ایک مناسب فریم ورک کو یقینی بنانا اور سماجی روایات سے نمٹنے کے لیے مزید کوششیں کرنا شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے ایشیا پیسیفک کے لیے علاقائی ڈائریکٹر بیورن اینڈرسن نے کہا ہے، ''ہمیں تعلیم کے ذریعے لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے مزید کام کرنا چاہیے اور اس حوالے سے شراکت داری کو مضبوط بنانا چاہیے۔ جامع سیکس ایجوکیشن سمیت انہیں مہارتوں سے آراستہ کرنا ہو گا جبکہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کمیونٹیز کو متحد کرنا ہو گا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔