امدادی کارکنوں کی ہلاکتوں ميں اضافہ، اقوام متحدہ
دنيا بھر ميں مسلح تنازعات اور قدرتی آفات کی زد ميں رہنے والے پريشان حال انسانوں کی مدد کرنے والے امدادی کارکنوں کو بھی شديد خطرات لاحق ہيں۔ ’ايڈ ورکرز‘ کی ہلاکتوں ميں ہر سال اضافہ نوٹ کيا جا رہا ہے۔
دنيا بھر ميں اس سال اب تک 62 امدادی کارکن مارے جا چکے ہيں۔ يہ انکشاف اقوام متحدہ کی جانب سے سترہ اگست کو جاری کردہ ايک رپورٹ ميں کيا گيا۔ 'ايڈ ورکر سکيورٹی ڈيٹا بيس‘ کے مطابق جنوری تا اگست مختلف ممالک ميں 84 امدادی کارکن زخمی ہوئے جبکہ 34 کو اغواء کيا گيا۔ گزشتہ برس ہلاک ہونے والے امدادی کارکنوں کی تعداد 122 تھی۔
عالمی ادارے کی جانب سے يہ رپورٹ 'ورلڈ ہيومينيٹيريئن ڈے‘ کی تياريوں کے سلسلے ميں جاری کی گئی، جو کہ ہر سال انيس اگست کو منايا جاتا ہے۔ بيس برس پہلے عراقی دارالحکومت بغداد ميں اقوام متحدہ کے ہيڈ کوارٹر پر خونريز حملہ کيا گيا تھا جس ميں بائيس افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک شدگان ميں سرگيو ويئيرا ڈی ميلو بھی شامل تھے، جو اس وقت اقوام متحدہ ميں انسانی حقوق سے متعلق محکمے کے ہائی کمشنر تھے۔
ايڈ ورکرز کے ليے سب سے خطرناک ملک اس سال بھی جنوبی سوڈان رہا۔ اس سال رواں ماہ کی دس تاريخ تک وہاں انسانی حقوق کے ليے سرگرم رضاکاروں پر چاليس حملے ريکارڈ کيے جا چکے تھے اور ان ميں بائيس افراد ہلاک ہوئے۔ فہرست ميں دوسرا نمبر سوڈان کا ہے، جہاں اب تک اسی طرز کے سترہ حملے ہو چکے ہيں۔ سوڈان ميں ہلاک ہونے والے امدادی کارکنوں کی تعداد انيس ہے۔ سن 2006 سے سن 2009 تک جاری رہنے والے دارفور مسلح تنازعے کے بعد امدادی کارکنوں پر اتنے زيادہ حملے اب ديکھنے ميں آ رہے ہيں۔ بين الاقوامی غير سرکاری تنظيم 'سيفٹی آرگنائزيشن‘ کے مطابق ايسے حملوں ميں ہلاک ہونے والے نوے فيصد امدادی کارکن مقامی ہوتے ہيں۔
ديگر ممالک جہاں امدادی کارکنوں کی ہلاکت ريکارڈ کی گئی، وہ وسطی افريقی ری پبلک، مالی، صوماليہ، يوکرين اور يمن ہيں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق محکمے کے سربراہ مارٹن گرفتھس کے بقول بغداد ميں کنال ہوٹل پر دھماکہ اور ورلڈ ہيومينيٹيريئن ڈے ان کے ليے ملے جھلے جذبات کا سبب بنتے ہيں۔ ان کا مزيد کہنا تھا کہ ہر سال بغداد حملے کے مقابلے ميں چھ گنا زيادہ امدادی کارکن مارے جا رہے ہيں۔ مارٹن گرفتھس نے کہا کہ ايسے جرائم کے خلاف کاررائيوں کا نہ ہونا، سب کی اجتماعی اخلاقیات پر ايک دھبہ ہے۔
اقوام متحدہ اس وقت تنازعات کی زد ميں رہنے والے ڈھائی سو ملين افراد کی مشکلات کم کرنے اور زندگياں بہتر بنانے کے ليے متحرک ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔