فرانس میں ہیڈ اسکارف پر پابندی عالمی معاہدے کے منافی، اقوام متحدہ کا فیصلہ
اقوام متحدہ کے مطابق فرانسیسی اسکولوں میں طالبات کے ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی لگا کر فرانس شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے جمعرات چار اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی حکام ایک اسکول میں ایک خاتون کی طرف سے ہیڈ اسکارف پہن کر آنے کی وجہ سے اس پر پابندی لگا کر انسانی حقوق کے ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔
اس بارے میں ایک شکایت 2016ء میں ایک ایسی فرانسیسی خاتون شہری کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جو 1977ء میں پیدا ہوئی تھی۔ اس خاتون کا نام، مذہب اور دیگر شناختی کوائف اس کے وکیل کی درخواست پر ظاہر نہیں کیے گئے۔
اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کا فیصلہ
اس درخواست پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے کہا کہ فرانسیسی حکام کا اس خاتون پر اس کے ہیڈ اسکارف کے باعث پابندی لگا دینے کا فیصلہ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنوینشن کے منافی تھا۔
یہ شکایت جس خاتون کی طرف سے دائر کی گئی تھی، وہ ہیڈ اسکارف کے باعث خود پر پابندی لگائے جانے کے وقت 2010ء میں ایک پیشہ وارانہ تربیتی کورس میں حصہ لینا چاہتی تھی اور اس کورس کے لیے اس نے داخلے کا امتحان اور انٹرویو دونوں پاس بھی کر لیے تھے۔
تاہم پیرس کے ایک جنوب مشرقی مضافاتی علاقے میں لانگوَیں والَوں (Langevin Wallon) نامی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے اس خاتون کو اس لیے اس ٹریننگ کورس میں حصہ لینے سے روک دیا تھا کہ وہ اپنے ہیڈ اسکارف کی صورت میں 'ایک مذہبی علامت‘ پہنے ہوئی تھی اور اس بات کی فرانس کے عوامی تعلیمی اداروں میں اجازت نہیں تھی۔
'فرانس کو ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت‘
بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے اس فرانسیسی خاتون شہری کی درخواست پر اپنا فیصلہ اس سال مارچ میں ہی کر لیا تھا مگر تب اس کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی کی طرف سے اس فیصلے کی دستاویز درخواست دہندہ خاتون کے وکیل کو بدھ تین اگست کے روز بھیجی گئی۔
اس خاتون کے وکیل صفین گوئز گوئز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''یہ ایک انتہائی اہم فیصلہ ہے، جو ثابت کرتا ہے کہ فرانس کو اپنے ہاں مذہبی اقلیتوں، خاص کر مسلم اقلیتی برادری کے افراد بالخصوص خواتین کے انسانی حقوق کے حوالے سے اب تک کے مقابلے میں کہیں زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔