کیا ممتا صرف اپنی کوکھ سے جنم دینے والے بچے ہی کے لیے ہو سکتی ہے؟

مصری معاشرے میں یتیم بچوں کو اپنا کر انہیں اپنی اولاد کی طرح پالنے کا بہت کم رواج پایا جاتا ہے لیکن اب یہ رجحان بدل رہا ہے۔ اب قانون میں بھی نرمی کی گئی ہے تاکہ زیادہ یتیم بچوں کو مستقل گھر مل سکیں۔

کیا ممتا صرف اپنی کوکھ سے جنم دینے والے بچے ہی کے لیے ہو سکتی ہے؟
کیا ممتا صرف اپنی کوکھ سے جنم دینے والے بچے ہی کے لیے ہو سکتی ہے؟
user

ڈی. ڈبلیو

اس رواج کو فروغ دینے اور معاشرے میں اس بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے چند خواتین نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے ذاتی تجربات اور جذبات پر مبنی ایسا مواد شیئر کرنا شروع کیا، جس سے مصر کے معاشرے میں بہت تیزی سے لوگوں میں یتیم بچوں کو لے کر پالنے اور انہیں اپنی اولاد کی طرح پروان چڑھانے کا شوق بیدار ہوا ہے۔

مصر میں 'لے پالک‘ کی قانونی حیثیت

مصری معاشرے میں تاریخی طور پر کسی یتیم بچے کو لے کر پالنے کے حوالے سے کچھ زیادہ رغبت یا جوش و خروش نہیں پایا جاتا تھا۔ کبھی کبھی تو ایسے بچوں کو 'معاشرتی بدنامی‘ یا ایک 'بدنما داغ‘ کے طور پر دیکھا جاتا کیونکہ ایسے بچے، جو اپنے حقیقی ماں باپ کے ہاں نہیں پلتے بڑھتے، ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بغیر کسی 'ازدواجی بندھن کے‘ ساتھ رہنے والے جوڑے کے ہاں پیدا ہوئے ہیں۔ اب معاشرے میں چند خواتین نے مل کر اس دقیانوسی سوچ کو بدلنے اور یتیم بچوں کو با عزت اور باوقار طریقے سے معاشرے کا فرد تسلیم کرنےکے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ 'لے پالک‘ کے طور پر پروان چڑھانے کے بارے میں شعور اور شوق بیدار کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ مصر میں کسی یتیم بچے کو اپنانے کے عمل کے لیے 'کفالہ‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

سوشل میڈیا پر دلچسپ 'کفالہ‘ کہانیاں


یاسمین الحبل ایک عرصے سے ایک بیٹی کو جنم دینے کا خواب دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے اس بچی کا نام بھی سوچ رکھا تھا، '' غالیہ‘‘ جو عربی زبان کا لفظ ہے اور جس کے معنی ہیں خوش قسمت، خوشبو دار۔ یاسمین اپنی بیٹی کو یہ نام دینا چاہتی تھیں۔ انہوں نے کبھی شادی نہیں کی۔ 40 سالہ یاسمین الحبل ایک روز مصر کے ایک یتیم خانے میں پہنچیں اور انہیں ان کی بیٹی '' غالیہ‘‘ مل گئی۔ بڑی بڑی بوری آنکھوں والی ایک شور شرابا کرنے والی بچی یاسمین کی گود میں آتے ہی اتنا سکون محسوس کرنے لگے کہ اُسے نیند آ گئی۔ الحبل نے کہا،'' خدا نے اسے میرے لیے پیدا کیا ہے۔ اگر میں نے اسے خود ہی جنم بھی دیا ہوتا، تب بھی میں اس سے اتنی ہی محبت کرتی۔‘‘

یاسمین الحبل ایک بلاگ اسٹائل کا فیس بک پیج چلاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنی اور اپنی لے پالک بیٹی غالیہ کی روزمرہ کی تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دیں۔ اپنی بچی کو گانے سناتی اپنی زندگی میں مگن الحبل اور اس کی بیٹی کی تصاویر مصری میڈیا میں بہت مقبول ہو گئیں۔


غالیہ کا پکارنے کا نام اُس کی لے پالک ماں نے 'لولی‘ رکھا۔ یہ بچی ہنستی، کھیلتی، روتی اور ہر طرح کی سرگرمیاں جاری رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ بیمار پڑتی اور پھر صحت مند بھی ہو جاتی، '' میں کبھی کبھی اس کی طرف دیکھتی ہوں اور خود محو حیرت ہوتی ہوں کہ خدا نے ہم دونوں کو نہ ملایا ہوتا تو ہماری زندگیاں کیسی ہوتیں؟‘‘ ایک بار الحبل نے اپنے ایک پوسٹ میں درج کیا،'' مجھے اپنی بیٹی کے بغیر اپنی زندگی کا ایک پل بھی یاد نہیں۔‘‘

کفالہ مائیں اور مصری معاشرہ


مصر کا ایک بہت مشہور فیس بک پیج 'ژالہ کفالہ‘‘ ہے، جس کی بانی راشا میکی ہیں۔ ان کا شمار مصر کی مشہور ترین کفالہ ماؤں میں ہوتا ہے، جو بہت جلد ایک سماجی کار کن بھی بن گئیں۔ انہوں نے یہ 'نان پرافٹ‘ پیش قدمی شروع کی جس کا مقصد معاشرے میں لے پالک بچوں کے بارے میں پائے جانے والے غلط اور منفی خیالات کو دور کرنا اور ثقافتی غلط فہمیوں کے بارے میں شعور بیدار کرنا ہے۔

ان کا فیس بُک پیج ایسے تمام تر سوالات کا جواب دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کوشش ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لوگوں کو بتایا جائے کہ یتیم خانے سے لا کر گھروں میں ان کی تربیت کرنے والے لے پالک والدین کو ایسے بچوں سے کس طرح بات کرنا چاہیے اور یہ کہ معاشرے کو ایسے بچوں سے متعلق بات چیت کرتے وقت کن باتوں کو ملحوض رکھنا چاہیے۔ یعنی کفالہ کے موضوع پر کس طرح گفتگو کی جانی چاہیے۔ 'ژالہ کفالہ‘‘ فیس بُک پیج کے 49 ہزار فولوورز ہیں۔


کفالہ اور مصری قوانین

مصر میں بہت سے دیگر مسلم معاشروں کی طرح اب لے پالک والدین کے لیے بچے کو گود لینے اور اسے اپنی فیملی کا باقاعدہ حصہ بنانے کے عمل کو سہل بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ ان بچوں کو مستقل گھر فراہم کر سکیں۔ مصر میں کفالہ کے تحت بچوں کو اکثر وراثت کے حقوق کے ضمن میں حقیقی اولاد کے برابر حقوق میسر نہیں ہوتے۔ علاوہ ازیں اسے لے پالک والد کا پورا نام بطور ولدیت استعمال نہیں کرنے دیا جاتا تھا۔ اب یہ بچے یا تو والدین کی طرف سے دیے گئے نام کا استعمال کر سکتے ہیں یا پھر 'فیملی نیم‘ یا خاندانی نام بھی اپنے نام کے ساتھ لکھ سکتے ہیں۔


مصر کی سماجی یکجہتی کی وزارت سے منسلک ریم امین کا کہنا ہے کہ راشا میکی جیسے گروپ معاشرے میں یتیم بچوں کو مستقل گھر مہیا کرنے والے گھرانوں کی بہت حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور اس طرح زیادہ سے زیادہ پارٹنرز بچوں کو مستقل طور پر اپنا گھر فراہم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ الحبل کو امید ہے کہ ایک دن معاشرے میں اس بارے میں مثبت تبدیلی آئے گی۔ وہ کہتی ہیں،'' میری خواہش ہے کہ دنیا میں تمام بچوں کو گھر میسر ہو۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔