امریکی ریاست الاباما میں ٹرانس جینڈرز کا تعین، سیاسی مسئلہ بن گیا
امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے ٹرانس جینڈر بچوں کی جنس کی تصدیق کے لیے طبی معالجے کو جرم قرار دیے جانے سے متعلق ریاست الاباما کے ایک قانون پر عملدرآمد عارضی طور پر روک دیا ہے۔
رپبلکن پارٹی کے زیر انتظام ریاستوں میں قانون سازی کے ذریعےکم عمر ٹرانس جینڈر افراد کو میسر میڈیکل آپشنز کو محدود کر دیا گیا ہے۔
ریاست الاباما میں اس ماہ نافذ کیے گئے بچوں سے ہمدردی اور تحفظ کے قانون کے تحت ایسی بلوغت روکنے والی ادویات اور ہارمونز تھراپیز پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جن کے ذریعے ایک فرد کے جسم کو اس کی جنس کے مطابق ڈھالنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت اس طرح کی تھراپیز فراہم کرنے والوں کو دس سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تاہم جمعے کے روز امریکی ڈسٹرکٹ جج لائلز برک نے الاباما کے اس قانون کے بعض حصوں کے ملکی آئین سے متصادم ہونے کے قوی امکان کو ظاہر کرتے ہوئے ان پرعارضی پابندی عائد کر دی۔ اس معاملے پر حتمی فیصلہ عدالتی کاروائی مکمل ہونے پر دیا جائے گا۔
اس امریکی جج کے مطابق ، ''یہ والدین کا بنیادی حق ہے کہ وہ تسلیم شدہ طبی معیار کے مطابق اپنے بچے کی طبی دیکھ بحال کا فیصلہ کر سکیں جبکہ جنس کے عدم تعین کی بنیاد پر امتیاز برتنا جنسی تفریق کے برابر ہے۔‘‘
جج کا کہنا تھا کہ '' اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں کہ جنس کی تصدیق میں مدد دینے والا علاج تجرباتی ہے ۔ اس بات کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ امریکہ کی کم ازکم بائیس بڑی میڈیکل ایسوسی ایشنز نے کم سن افراد میں جنس کا تعین کرنے میں مدد دینے والی ادویات کے کارگر ہونے کی تصدیق کی ہے۔‘‘
وفاقی امریکی عدالت نے ریاستی قانون کے ان حصوں کو نہیں چھیڑا ہے، جن میں کم عمر افراد میں جنس کی تصدیق کے لیے آپریشن کرانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سکولوں کے عملے کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ بچوں کی جنسی شناخت سے متعلق کوئی بھی معلومات ان کے والدین کے ساتھ شئیر کریں۔
اس سے قبل جمعے کے روز ریاست ٹیکساس کی سپریم کورٹ نے ٹرانس جینڈر بچوں میں جنس کی تصدیق کے لیے علاج کرانے والے والدین سے تفتیش کرنے کی اجازت بحال کر دی ہے۔
مارچ میں ایک اپیل کورٹ نے ٹیکساس کے رپبلکن گورنر گریگ ایبٹ کے اس حکم نامے کو نافذ ہونے سے روک دیا تھا، جس کے تحت بچوں میں تبدیلی جنس کی جراحی کو بچوں کا استحصال کرنے کے مترادف ٹھہراتے ہوئے اسے قابل سزا جرم قرار دیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اپیل کورٹ نے اپنی صوابدید کا غلط استعمال کیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔