بھارت: خواجہ سراؤں کا پولیس فورس میں بھرتی کا مطالبہ
بھارت میں ٹرانس جینڈر کو عوامی خدمات کے شعبوں میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے سے متعلق قوانین موجود ہیں، تاہم نوکر شاہی کی رکاوٹوں کی وجہ سے یہ اپنی کمیونٹی کے لیے کام کرنے کے خواب پورا نہیں کر پا رہی۔
بھارتی ریاست مہا راشٹر کی ایک ٹرانس جینڈر نکیتا مکھیڈال کے لیے یہ ایک آزمائشی دن تھا، جو ریاستی پولیس فورس میں خواجہ سراؤں کو شامل کرنے کے لیے کئی برسوں سے لڑ رہی ہے۔ بھارتی فوج کے لباس میں ملبوس نکیتا نے دیگر خواجہ سراؤں کے ساتھ مل کر اس احتجاجی مارچ کی قیادت کی، جو مہا راشٹر میں پولیس میں بھرتی کی درخواست سے متعلق پالیسیوں کے خلاف تھا۔ دو ماہ میں یہ ان کا دوسرا مظاہرہ تھا۔
نکیتا مکھیڈال کو پیدائش کے وقت ایک مرد قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''یہ ہمیشہ سے ہی صنفی شناخت کی لڑائی رہی ہے۔'' وہ کہتی ہیں: ''جب میں تقریباً چار برس کی تھی، تو میرے رویے لڑکیوں کی طرح نظر آنے لگے۔ مجھے لڑکی ہونا پسند تھا۔ میرا جسم مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر رہا تھا، مجھے لڑکی کی طرح چلنے اور لڑکی کی طرح بات کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ معاشرے نے مجھے بتایا کہ میں مختلف ہوں۔''
مکھیڈال کو احساس ہوا کہ وہ سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کرنے کے بعد پولیس افسر بننا چاہتی ہیں۔ انہوں نے سن 2022 میں مہا راشٹر پولیس فورس کے لیے اپلائی کیا۔ تاہم انہیں معلوم ہوا کہ اس میں کسی تیسری صنف کا کوئی آپشن نہیں ہے اور انہیں خواتین کے زمرے کے تحت درخواست دینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ پھر نکیتا اور کئی دوسرے ٹرانس جینڈر نے مل کر ایک انتظامی ٹرائبیونل سے رجوع کیا، جس نے ریاست کو حکم دیا کہ وہ بھرتی کرنے کے فارم میں خواجہ سراؤں کے لیے بھی ایک کالم کا بندوبست کرے۔
وہ کہتی ہیں کہ محکمہ پولیس نے اس حکم کے خلاف عدالت میں اپنی دلیل پیش کی کہ ''ہم پولیس میں بھرتی کے قابل نہیں ہیں۔ ہمارے وکیل نے دلیل دی کہ بغیر جانچ کے اور جسمانی اور تحریری امتحان لیے بغیر ہمیں کیسے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہائی کورٹ نے بھی ہمارے حق میں فیصلہ دیا تھا۔''
ٹرانس جینڈر درخواست دہندگان کو رکاوٹوں کا سامنا
دسمبر 2022 میں خواجہ سراؤں کو بھی بھرتی کا فارم پر کرنے کی اجازت دی گئی۔ تاہم یہ عمل آسان نہیں تھا۔ نکیتا نے بتایا کہ انہیں درخواست مکمل کرنے کے لیے صرف پانچ دن کا وقت دیا گیا۔ وہ کہتی ہیں، ''اس کے باوجود تقریبا 73 خواجہ سراؤں نے فارم بھرے۔ لیکن اگر یہ وقت ایک ماہ کا دیا گیا ہوتا، تو شاید 1,000 درخواستیں آتیں۔''
پھر انہیں جسمانی معیار کے ٹیسٹ کی تیاری کے لیے تین ماہ کا وقت دیا گیا۔ انہوں نے بتایا، ''حکومت کا رویہ ہمارے ساتھ منفی تھا اور وہ پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ ہم اس کے اہل نہیں ہیں۔'' نکیتا نے جسمانی امتحان میں کامیابی بھی حاصل کی۔ تاہم انہیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ دیگر ٹرانس جینڈر درخواست گزاروں کے ساتھ ان کا نام بھی خواتین کے کالم میں درج کیا گیا۔ اس کے باوجود کہ اس میں تیسری جنس کو شامل کرنے کے لیے کافی کوشش کی گئی تھی۔
جب تحریری امتحان کا وقت آیا تو ٹرانس جینڈر گروپ کو مرد اور خواتین گروپوں کے ساتھ ہی شامل کر دیا گیا، جبکہ ان دونوں کے پاس تیاری کے لیے بہت زیادہ وقت تھا۔ نکیتا نے بتایا کہ ''ہمیں نااہل قرار دے دیا گیا کیونکہ ہم ان عام زمروں کے لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔''
37 سالہ نکیتا ابھی بھی ریاست مہا راشٹر میں پولیس فورس میں درخواست دینے کی مقررہ عمر کی حد کے اندر ہی ہیں۔ وہ محسوس کرتی ہیں کہ اگر ضرورت سے زیادہ پیچیدہ بیوروکریسی نہ ہوتی تو انہیں قبول کر لیا جاتا۔ تاہم وہ دوسرے ایسے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے مہم چلانے کا کام جاری رکھیں گی، جنہیں اسی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
سن 2014 میں بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو تیسری جنس سمجھا جائے گا۔ فیصلے میں حکومت کو یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ خواجہ سراؤں کو ملازمتوں اور تعلیم میں شامل کرنے کے لیے ایک فیصد کا ریزرویشن بھی فراہم کیا جائے۔ بھارت میں ٹرانس جینڈر گروپ اسی ایک فیصد ریزرویشن کو نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک صرف جنوبی ریاست کرناٹک کی حکومت نے ہی سرکاری ملازمتوں میں خواجہ سراؤں کے لیے ایک فیصد ریزرویشن پر عمل کیا ہے۔
ٹرانس جینڈر کمیونٹی میں عوامی خدمت کا جذبہ
ریاست چھتیس گڑھ میں سن 2021 میں پولیس فورس کے ذریعے 13 خواجہ سراؤں کو بھرتی کیا گیا تھا۔ اب نو خواجہ سرا چھتیس گڑھ پولیس کی اس خصوصی یونٹ کا بھی حصہ ہیں، جسے ماؤ نواز باغیوں سے متاثرہ علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے۔
چھتیس گڑھ پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وہ خصوصی وارفیئر ٹریننگ سے گزر رہے ہیں۔ وہ کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ کافی حوصلہ افزا ہیں۔ اور فورس میں شامل ہونے کے بعد ان کا حوصلہ بہت بلند ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''اس اقدام نے فورس کو مزید جامع اور حساس بھی بنا دیا ہے۔ پولیس فورس سے غیر جانبدار رہنے اور حساس ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ اگر آپ معاشرے کے تمام طبقات کو شامل کریں، تو یہ غیر جانبداری اور حساسیت زیادہ نظر آتی ہے۔''
سینیئر عہدیدار نے کہا کہ محکمہ پولیس نے اپنی صفوں میں خواجہ سراؤں کا خیرمقدم کیا ہے۔ ''ایک بار جب آپ تیسری جنس کو شامل کر لیتے ہیں، تو فورسز کو حساس بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ فورسز کے اندر کوئی تفریق نہ ہو۔ پولیس فورس میں بھی لوگ اسی معاشرے سے ہیں، جہاں سے تیسری جنس کے لوگ ہیں۔ اب آپ اسی فورس میں ہیں اور آپ کو کندھے سے کندھا ملا کر ڈیوٹی کرنی ہے۔'' انہوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی شکایت نہیں ہے، لیکن تسلیم کیا کہ مستقبل میں پیچیدگیاں ہو بھی سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا، ''کچھ چیلنجز ہو سکتے ہیں، جیسے کہ علیحدہ بیت الخلاء یا بیرک وغیرہ۔ ابھی تک یہ سامنے نہیں آیا ہے، لیکن یہ چند چیلنجز ہیں جن کا میں اندازہ لگا رہا ہوں۔ ابھی، خواجہ سراؤں کی تعداد بھی بہت کم ہے، ایک بار جب تعداد بڑھے گی، تو اس طرح کے کے چیلنجوں کا امکان ہو سکتا ہے۔'' نکیتا کا خیال ہے کہ جب خواجہ سراؤں کو سرکاری ملازمتوں میں جانے کی اجازت دی جائے گی تو یہ مساوات کی اصل پیروی ہو گی۔
وہ کہتی ہیں، ''سب سے بڑی تبدیلی تو یہ ہو گی کہ ٹرانس جینڈر بھیک مانگنے اور جنسی کام جیسے ذرائع آمدن سے الگ ہو جائیں گے۔ ایک بار جب ہم سرکاری نوکریاں حاصل کرنا شروع کر دیں گے تو ہماری آنے والی نسلیں دیکھیں گی کہ اس کے علاوہ اور بھی آپشنز ہیں اور عزت کی زندگی بھی ہے۔''
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔