کراچی کے پارسیوں کا المیہ
زرتشت مذہب کے ماننے والے، پارسی، ایک زمانے میں کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ حالانکہ پاکستان کے اس شہر میں اب بھی کچھ پارسی رہتے ہیں لیکن اس کمیونٹی کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
زرتشت کا نام جب مغرب میں لیا جاتا ہے تو اسے فریڈرک نطشے اور وولٹیئر جیسے دانشوروں یا فریڈی مرکری جیسے گلوکاروں اور رچرڈ سٹراس جیسے موسیقاروں اور ہالی وڈ کی کئی معروف فلموں سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے لیکن کراچی کی پارسی برادری کے لیے زرتشت کی شخصیت بہت گہرے معنی کی حامل ہے۔ وہ اسے دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک زرتشتی کے بانی کے طورپر جانتے ہیں اور جس کی تعلیمات پر وہ آج بھی عمل پیرا ہیں۔
عطیات و خیرات اور فلاحی کاموں کے ذریعہ لوگوں میں خوشی پھیلانا اس مذہب کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ہے۔ سن 1947 میں بھارت کی تقسیم سے پہلے کراچی کی پارسی برادری نے شہر کی ثقافتی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں مدد کرکے اپنی موجودگی کا ثبوت دیا۔ ان کی کوششوں کے بدولت کراچی کو کئی نئے اسکول، ہسپتال اور تھیئٹر ملے۔
ٹاون پلانر اور آرکیٹیکٹ عارف حسن بتاتے ہیں کہ "دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ گوکہ ان علاقوں میں ہی رہتے تھے جو انہوں نے اپنے لیے بنائے تھے، مثلاً کراچی میں پارسی کالونی۔ لیکن ان کے فلاحی کاموں کا دائرہ دیگر علاقوں میں بھی پھیلا ہوا تھا۔ مثال کے طور پر انہوں نے شہر کے لیے ماماپارسی اور بی وی ایس جیسے اسکول، ڈسپنسریز اور میٹرنٹی ہسپتال کھولے۔"
پارسی میئر جدید کراچی کا معمار
برصغیر میں زرتشتیوں کی تاریخ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے۔ ایک زمانے میں قدیم فارس(موجودہ ایران) کا یہی غالب مذہب تھا لیکن ساتویں صدی میں عربوں کی فتح کے بعد وہ اپنے گھر بار چھوڑنے کے لیے مجبور ہوئے اور بالآخر موجودہ بھارت اور پاکستان کے علاقوں میں آباد ہو گئے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں کراچی میں پارسی ایک متحرک اور نمایاں برادری تھی۔ سن 1930 کی دہائی میں جب کراچی کو اپنا پہلا میئر منتخب کرنے کا موقع ملا تو اس نے ایک پارسی، جمشید جی نوشیرواں جی کو اپنا میئر منتخب کیا۔انہیں شہر کے بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر بہتر بنانے، صفائی اور تعلیم پر توجہ دینے نیز ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے ان کے جذبے کی وجہ سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پارسی برادری کے دیگر افراد نے بھی اونچی منزلیں طے کیں اور پاکستان کے باضابطہ قیام کے بعد بھی یہ برادری ترقی کرتی رہی۔
ممتاز پاکستانی پارسی اور اواری ہوٹلز کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر دنشا بی اواری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،" تقسیم کے فوراً بعد ہماری کمیونٹی کی تعداد کم نہیں ہوئی۔ درحقیقت اس میں اضافہ ہی ہوا۔ کیونکہ کم از کم میرے خاندان کے علم کی حد تک آزادی کے بعد کوئی بھارت نہیں گیا۔ وہ سب یہیں رہے۔ کمیونٹی اچھا کام کرتی رہی اور ترقی بھی کرتی رہی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد بتاتے تھے کہ سن 1977 تک اس ملک میں پارسیوں کی تعداد 8000 سے 10000 کے درمیان تھی اور ان میں سے 80 فیصد کراچی میں رہتے تھے۔"
آبادی میں کمی
سن 1970 کی دہائی کے اواخر میں یہ خطہ اتھل پتھل کا شکار تھا، 1977 میں فوجی بغاوت کے ذریعہ پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف کردیا گیا، ایران میں اسلامی انقلاب آیا اور 1978 میں افغانستان میں بغاوت ہو گئی جس کے بعد 1979 میں وہاں سوویت یونین نے حملہ کردیا۔ ان سیاسی واقعات کی وجہ سے پاکستان میں بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سکیورٹی کے نئے چیلنجز، افغانستان سے آنے والی مہاجرین کی لہر، افغان مجاہدین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے نتیجے میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی بھی متاثر ہوئی۔کراچی پر اس کا بہت زیادہ اثر پڑا۔ یہی وہ وقت تھا جب پارسی نے کراچی شہر کو چھوڑنا شروع کیا۔
آنے والی دہائیوں میں ان کی تعداد مسلسل کم ہوتی رہی اور ایک زمانے میں سب سے زیادہ بااثر گروپ اب پاکستان کی سب سے زیادہ آبادی والے شہر میں صرف ایک معمولی کردار کر رہا ہے۔ اواری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں پارسیوں کی تعداد تقریباً 800 ہے۔ ان میں سے 60 فیصد 65 سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔ اگلے سات سالوں میں ہماری تعداد گھٹ کر 400 رہ جائے گی۔"
انہوں نے مزید کہا،"اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ طبعی عمر کی وجہ سے ہونے والی ان کی موت۔ اس کے علاوہ تمام نوجوان اور ان کے خاندان معاشی وجوہات کی بنا پر ہجرت کرچکے ہیں۔ وہ آسٹریلیا اور کینیڈا چلے گئے ہیں... اس سے پہلے وہ برطانیہ گئے تھے۔ " اراوی کے مطابق کووڈ کی وبا نے تقریباً 250 پارسیوں کو چھین لیا۔
شادی کی روایات بھی بقا کے لیے ایک خطرہ
ایک اور معروف پارسی آرٹسٹ جمی انجینئر اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پارسیوں کے پاکستان چھوڑنے کی بنیادی وجہ معیشت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہجرت کی حوصلہ افزائی "معاشرے کی ذہنیت میں آنے والی تبدیلی" کی وجہ سے ہوئی ہے۔
جمی انجینئر اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں،"پاکستان میں کمیونٹی کا جو طرز زندگی تھا، مثلاً وہ جس طرح کے کپڑے زیب تن کرتے تھے، اس نے ان کی زندگی تھوڑی مشکل بنادی تھی، جس کی وجہ سے انہو ں نے یہاں سے جانا شروع کردیا۔ دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ان میں سے کچھ برطانیہ چلے گئے، کچھ آسٹریلیا اور کینیڈا چلے گئے۔"
ٹاون پلانر عارف حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے پارسیوں کی کم ہوتی آبادی کی ایک دوسری وجہ بھی بتائی۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ پارسی صرف اپنی کمیونٹی کے اندر ہی شادی کرنے کے پابندہیں اس لیے "آبادی میں کمی کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔"
ترقی کی گنجائش نہیں
اواری کے مطابق بہر حال مغرب کی طرف روانہ ہونے والے پارسی یہاں رہ جانے والے پارسیوں کے مقابلے زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا،"جو لوگ چلے گئے ہیں، انہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے پاس پاکستان میں جو کچھ تھا اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی کی ہے۔ انہیں مالی لحاظ سے اطمینان حاصل ہے۔"
اراوی کا یہ بھی ماننا ہے کہ پارسیوں کوبھی تقریبا ً انہیں چیلنجز کاسامنا ہے جو اس مسلم اکثریتی شہر میں دیگر اقلیتوں کو در پیش ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"یہاں معاشی تفریق ہے۔ ایک بینک ٹیلر(کلرک)، بینک ٹیلر ہی رہے گا۔ وہ ترقی نہیں کرتا، حالانکہ وہ ترقی کرنا چاہتا ہے۔ میں کئی ایسے پارسیوں کو جانتا ہوں جو ملٹی نیشنل بینکوں میں ٹیلر کے طورپر ہی سبکدوش ہو گئے۔ اکثریتی فرقے کے لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ "
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔