ہمیں جہیز نہیں چاہیے لیکن اپنی بیٹی کو تو دیجیے
ہمارے پاس ﷲ کا دیا سب کچھ ہے، بس آپ اپنی بیٹی کو اس کی خواہش اور اپنی استطاعت سے جو جہیز دینا چاہیں، دے سکتے ہیں۔ یہ وہ رٹے ہوئے الفاظ ہیں، جو لالچی لوگ جہیز کی آڑ میں حسبِ ذائقہ دہراتے رہتے ہیں۔
جہیز خوری کا ٹرینڈ دراصل ہمارے معاشرے کی رگوں میں کینسر کی سی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سماجی بے چینی تیزی سے کروٹ لے رہی ہے۔ عوام مہنگائی کے سونامی میں ڈوب گئے ہیں۔ ہر چیز کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ لوگ نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ اس کٹھن دور میں لڑکے والوں کی جانب سے جہیز کا مطالبہ والدین کو پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر جہیز کی ڈیمانڈ پوری نہ کی جائے تو بہت سی لڑکیوں کی یا تو شادی نہیں ہو پاتی اور اگر ہو بھی جائے تو انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر ٹارچر کیا جاتا ہے۔ ایسی پاکستانی خواتین جن کی شادی میں قدغن کی وجہ جہیز ہوتا ہے۔ ان میں سے کثیر تعداد کا کہنا ہے کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنے والدین کے لیے بوجھ بن گئی ہیں۔ نیز ایسی لڑکی جسے کوئی عارضہ لاحق ہو اس سے شادی کرنے کے لیے لڑکے اور اس کے خاندان والے زیادہ جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔
افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ بھی وہی کر رہا ہے، جو کوئی جاہل اور گنوار کرتا ہے۔ شادی کے نام پر دکھاوا اور نمودونمائش کا بازار گرم ہے۔ مارننگ شوز میں صبح سویرے رچائی جانے والی مصنوعی شادیوں نے لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔ ان شوز میں دکھائی جانے والی دلہنوں کے عروسی ملبوسات عالمی شہرت یافتہ ڈیزائنرز کے ڈیزائن کیے ہوتے ہیں، جن کی مالیت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ میک اَپ آرٹسٹ کے چارجز اتنے ہائی فائی کہ سونے کے بھاؤ، ایچ ڈی فوٹو شوٹ، مہنگی جیولری اور دیگر خرافات نے غرباء کو احساس کمتری میں ڈال دیا ہے۔
لڑکے کے خاندان والے نام نہاد اسٹیٹس اور اسٹینڈر کے زیر اثر بارات والے دن ہی چاہتے ہیں کہ سب کے سامنے دلہے کو مہنگے تحائف عنایت کیے جائیں تاکہ ان کے خاندان میں لڑکے کا شملہ اونچا ہو سکے۔ لیکن سچ تو یہ ہے غریب کی بیٹیاں جہیز اور اس سے منسلک دیگر لوازمات نہ ہونے کے باعث گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر سامانِ زندگی مہیا کریں۔
اس کے لیے اپنی عمر بھر کی کمائی، تنخواہیں جہیز کی نذر کر دیتے ہیں مگر جہیز اس وقت باعثِ نزاع بنتا ہے جب معاملہ طلاق تک پہنچ جائے اور جہیز سسرال کی حدود میں ہو۔ اس کے بعد اس کے حصول کے لیے تھانہ، کورٹ کچہریوں کے چکر کسی اذیت سے کم نہیں ہوتے۔
ماہرین سماجیات کے مطابق بیٹی والوں نے اس قبیح روایت کو خود ہی زندہ رکھا ہوا ہے کہ جہیز دیے بغیر گزارہ نہیں۔ جہیز کا لین دین تو پرانی ریت و رواج ہے، جس نے دینا ہے اپنی بیٹی کی سہولت کے لیے ہی دینا ہے۔
پاکستان کے کئی قبائل ایسے ہیں جو رخصتی کے موقع پر بیٹیوں کو قلیل سامان دے کر وراثت کے بڑے حق سے محروم کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی رخصتی کے وقت دلہن کو یہ بھی تلقین کر دی جاتی ہے کہ جس گھر میں ڈولی جائے اس گھر سے ڈولا اٹھے یعنی واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔
فلسفہ یہ ہے کہ لڑکی کے باپ پر ایک پیسے کا بھی بوجھ نہ ہو۔حکومت نے جس طرح رات گئے شادی بیاہ اور اس پر ہونے والی ہوائی فائرنگ اور شوروغل پر سختی سے پابندی عائد کی ہے اسی طرح جہیز پر مکمل پابندی لگائی جائے اور بارات کے پرتکلف کھانے کا رواج مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ مزید برآں بوقت نکاح قیمتی سامان یا تحائف کی فہرست باقاعدہ طور پر نکاح نامے کے ساتھ منسلک کی جائے اور اگر حکومت کی مقررہ کردہ رقم سے زیادہ مالیت کا سامان دیا گیا تو سزا کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی عائد ہو گا۔اس اقدام سے یقینا غریب والدین اس ظلمت کے دور میں سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔