آپ کی دخل اندازی کسی کی جان بھی لے سکتی ہے!

ناعمہ نے بچپن سے اپنے والد کو بہنوں کی ذمہ داریاں نبھاتے دیکھا اور ساتھ ہی یہ جملہ بھی کانوں میں پڑتا رہا کہ بہنوں کے فرض سے سبکدوش ہونے کے بعد چار بیٹیوں کا بوجھ بھی بےچارے کے سر پر ہے۔

آپ کی دخل اندازی کسی کی جان بھی لے سکتی ہے!
آپ کی دخل اندازی کسی کی جان بھی لے سکتی ہے!
user

Dw

بڑی بیٹی ہونے کے ناطے اس نے بہت چھوٹی عمر میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ اپنے والد کے لیے کبھی بوجھ نہیں بننا ہے بلکہ ان کا بازو بننا ہے۔ اسکول اور کالج میں ہمیشہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پھر گریجویشن کے لیے بیرون ملک ایک بہترین اسکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

ناعمہ مطمئن تھی کہ اب وہ اپنے والد کے لیے بوجھ نہیں بلکہ ان کا بوجھ بانٹنے کے قابل ہونے جا رہی ہے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ پھپھو اور تایا کی طرف سے زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ قریبی رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ لڑکی ''آزاد‘‘ ہے۔ اتنی آزادی دینا ہرگز مناسب نہیں۔ سیدھا سادہ بی اے کر لے تو بیاہ کر دو۔


بہن بھائیوں کی مخالفت نے ناعمہ کے ابو کو سوچ میں ڈال دیا تھا اور ناعمہ یہ سوچ کر حیران تھی کہ یہ سب لوگ ہمارے گھر کے مسائل حل کرنے میں تو کبھی آگے نہیں آئے لیکن آج جب ہم اپنی زندگی بدلنے کے قابل ہونے جا رہے ہیں تو یہ لوگ دخل اندازی کرنے پہنچ گئے۔ دوسروں کی زندگی میں دخل در معقولات ہمارے معاشرے کا ایک ایسا پہلو ہے، جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ کسی حد تک کم تو ہوا ہے لیکن ابھی بھی بےشمار لوگوں کو ان رویوں کا سامنا ہے۔

یہ صورتحال اس وقت مزید تکلیف دہ ہو جاتی ہے کہ جب ایسے لوگ آپ کی زندگی میں دخل اندازی شروع کر دیں، جن کا کچھ لینا دینا ہی نہ ہو۔ مثلاً ساتھ کام کرنے والے یا پبلک ٹرانسپورٹ میں ساتھ سفر کرنے والے لوگ بھی اپنے مشوروں سے نا صرف نوازنا شروع ہو جاتے ہیں بلکہ بضد ہوتے ہیں کہ ان کے مشوروں پر عمل کیا جائے۔


بے جا قسم کے سوالات کر کے دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح کے تجسس کے مارے لوگ ہم سب کے اردگرد موجود ہوتے ہیں، جنہیں ہماری زندگی کی فکر شاید ہم سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی اپنی زندگیوں کے معاملات بے شک کتنے ہی گڑبڑ کیوں نہ چل رہے ہوں لیکن وہی بات ہے کہ انہیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آ جاتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔

دوسروں کی زندگیوں کے بارے میں فیصلہ دینے کے بجائے اگر اپنی زندگی کے بارے میں فکر کر لی جائے تو شاید کچھ مسائل سے نمٹا جا سکے۔ کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی کے بارے میں بہتر فیصلہ کر سکتا ہے، ''قبر کا حال مردہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘ کے مصداق ہر شخص کو اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کلّی اختیار حاصل ہے۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ اپنی زندگی سے زیادہ دوسرے کی زندگی کے بارے میں فیصلہ دینے کا شوق اگلے کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔


خاندانوں کے مابین یہ صورتحال تو کوئی نئی بات نہیں لیکن آج کا دور برقی رابطوں کا دور ہے تو اب سوشل میڈیا پر بھی ان رویوں کا سامنا ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا ہمارے معاشرے کی ہی عکاسی کرتا ہے۔ چاہے خاندان کے لوگ ہوں یا مشہور شخصیات، ہر ایک کی زندگی میں دخل اندازی ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔

حالیہ واقعات میں عامر لیاقت کی نجی زندگی سے متعلق لوگوں کے رویے انتہائی ناشائستہ تھے۔ اسی طرح دیگر کئی مثالیں موجود ہیں، جب لوگوں کی دخل اندازی نے کسی کو موت کے منہ تک پہنچا دیا۔ انسان کی شخصیت پر اس کے معاشرے کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم میں سے اکثریت ان تمام باتوں کو معیوب سمجھنا تک چھوڑ چکی ہے۔


یوں معلوم ہوتا ہے کہ دخل در معقولات ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے۔ ہم کسی کی بھی ذاتی زندگی پر بغیر جھجک کےکچھ بھی بہت آرام سے بول دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کی جوان بیٹی ہے تو سوال ہو گا کہ ''اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ ہم نے اتنے رشتے بتائے، پتا نہیں کس شہزادے کا انتظار ہے تم لوگوں کو۔‘‘

شادی شدہ جوڑے سے پہلا سوال ہو گا بچے کتنے ہیں؟ ایک ہے تو کیوں؟ صرف ایک کیوں ہے؟ ایک بھی نہیں ہے تو''ارے بابا علاج کیوں نہیں کرایا۔ ہمارے تجویز کردہ ڈاکٹر کو دکھاؤ۔‘‘ پھر اگلی ملاقات میں باقاعدہ ناراضی کا اظہار ہو گا کہ ''کسی کی بات سنتے ہی نہیں ہو تم لوگ۔‘‘


ایسے بےشمار تکلیف دہ رویے لوگوں کو تنہائی کا شکار کر دیتے ہیں۔ معقول لوگ، جو ایسے رشتہ داروں سے الجھنا پسند نہیں کرتے، اپنے آپ کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر لیتے ہیں۔ بلکہ انتہائی صورت میں لوگوں کے خودکشی کی حد تک جانے کی مثالیں بھی ہم سب کے سامنے ہیں۔

خدا راہ اس بات کی نزاکت کو سمجھیں کہ ہر شخص اتنے مضبوط اعصاب کا مالک نہیں ہوتا کہ اپنی ذاتی زندگی میں دوسروں کی دخل اندازی کو حوصلے سے روک سکے۔ مشرقی معاشرے کی خوبصورتی اس بات میں ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔


ایک دوسرے کا احساس کرتے ہیں اور دوسرے کی پریشانیوں سے واقف ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہی تعلق حسد اور طنز میں تبدیل ہو جائے یا بےجا دخل اندازی ہو تو دوسروں کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی بھرپور جیئں اور دوسروں کو ان کی زندگی جینے دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی دخل اندازی کسی کو اپنی زندگی کے اختتام کا فیصلہ لینے پر مجبور کر دے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔