جنوبی ایشیا: تین چوتھائی بچوں کو شدید گرمی کے خطرات کا سامنا
اقوام متحدہ نے جنوبی ایشیا میں تین چوتھائی بچوں کو لاحق خوفناک حد تک بلند درجہ حرارت کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔ اس عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے پیر سات اگست کو ایک انتباہی بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے بلند درجہ حرارت جنوبی ایشیا کا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات شدید ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں غیر معمولی حد تک بڑھے ہوئے درجہ حرارت سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔ بچوں کی بہبود کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی یونیسیف نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں تقریباً 460 ملین یا 76 فیصد بچے شدید گرمی کا شکار ہیں، جو عالمی سطح پر بچوں کی تعداد کا ایک تہائی بنتی ہے۔
یونیسیف کے جنوبی ایشیا کے ریجنل ڈائریکٹر سنجے وجیسیکرا کا اس بارے میں کہنا تھا، ''عالمی سطح پر بلند درجہ حرارت سے متاثرہ انسانوں کے اعداد و شمار واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں لاکھوں بچوں کی زندگیوں اور صحت کو گرمی کی لہروں اور بلند درجہ حرارت سے شدید خطرات لاحق ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، مالدیپ اور پاکستان میں بچے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے ''انتہائی زیادہ خطرات‘‘ کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق
ان ممالک میں ہر سال کم از کم 83 دن درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ رہتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے اتنے بلند درجہ حرارت کا اپنے جسم کو عادی نہیں بنا پاتے اور موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ اپنے جسم کے درجہ حرارت کو ہم آہنگ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ سنجے وجیسیکرا کے بقول، ''چھوٹے بچے گرمی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ بچے آنے والے سالوں میں زیادہ اور بار بار اور زیادہ شدید گرمی کی لہروں کا شکار رہیں گے۔‘‘
1800ء کی دہائی کے اواخر کے مقابلے میں گلوبل وارمنگ کے سبب تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے نے جہاں انسانوں کو 'خاص طور سے بچوں‘ کی صحت کو شدید متاثر کیا ہے وہاں گرمی کی لہریں مزید گرم اور طویل تر ہوئی ہیں اور طوفان اور سیلاب جیسی دیگر قدرتی آفات کے امکانات کو بھی غیر معمولی حد تک بڑھا دیا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو پہلے سے ہی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی وجہ سے گوناگوں مسائل کا سامنا ہے اور یہ کہ کاربن آلودگی کو اس دہائی میں بہت حد تک کم کیا جانا ضروری ہے بصورت دیگر مستقبل میں مزید خراب صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔