سعودی ریستورانوں میں صنفی امتیاز کا خاتمہ

سعودی حکومت کی جانب سے ایک حالیہ اقدام کے نتیجے میں اب خواتین کو ریستورانوں میں علیحدہ داخلی راستہ استعمال کرنے یا پردے کے پیچھے بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

یہ فیصلہ کئی دہائیوں سے جاری قدامت پسند پابندیوں کے خلاف ایک علامتی قدم کے طور پر لیا گیا ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے ایک حالیہ اقدام کے نتیجے میں اب خواتین کو ریستورانوں میں علیحدہ داخلی راستہ استعمال کرنے یا پردے کے پیچھے بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس صنفی امتیاز کے خاتمے کا یہ اعلان سعودی حکومت کے وزارت بلدیات و دیہی امور کی جانب سے ایک طویل اور تکنیکی بیان میں اتوار کے روز خاموشی سے کیا گیا۔

اس سے قبل سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ اور دارالحکومت ریاض کے کچھ ریستورانوں اور کیفیز میں نا محرم مردوں اور خواتین کو آزادانہ طور پر اکٹھے بیٹھنے کی اجازت تھی۔ روایتی سعودی اس صنفی امتیاز کو ایک مذہبی ضرورت کے طور پر دیکھتے ہیں باوجود یکہ ہمسایہ مسلم ملکوں میں ایسا اصول رائج نہیں ہے۔ سعودی عرب میں یہ ایک معمول رہا ہے کہ غیر متعلقہ یا نا محرم مردوں اور عورتوں کو گھلنے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ سرکاری اسکوں اور بیشتر سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی اسی عمل افتراق کے تحت خواتین اور مردوں کو الگ رکھا جاتا ہے۔ اور وہاں کی شادیوں کی محفلوں میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔


سعودی عرب میں ریستوران اور کیفے جن میں اسٹار بکس جیسی بڑے برانڈ بھی شامل ہیں فی الحال فیملی سیکشنز کی صورت میں بٹے ہوئے ہیں، جہاں اکیلی خواتین اور مرد رشتہ داروں کے ساتھ آنے والی خواتین کے بیٹھنے کا الگ انتظام ہوتا ہے۔ اور صرف مردوں کے بیٹھنے کی جگہ الگ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے ریستورانوں میں خواتین کے لیے علیحدہ داخلی راستے اور کمرے ہیں جہاں یہ خواتین مردوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ ایسے چھوٹے ریستوران جن میں الگ بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی وہاں خواتین کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔

تاہم حالیہ برسوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے معاشرتی اصلاحات کو بڑھاوا دیا ہے اسی کی بدولت اب خواتین اور مرد محافل موسیقی اور سینما گھروں میں جاسکتے ہیں، جہاں پہلے جانا ممنوع ہوتا تھا۔ انہوں نے ملک کی مذہبی پولیس کے اختیارات میں بھی کمی کی جو کہ عوام میں صنفی امتیاز جیسی پابندیوں کو رائج کرنے پر زور دیتی تھی۔ دو سال قبل خواتین کو پہلی بار اسٹیڈیم میں کھیلوں کے مقابلے فیملی سیکشن میں بیٹھ کر دیکھنے کی اجازت ملی۔ حالیہ برسوں میں کم عمر لڑکیوں کو بھی اسکول میں کھیلوں میں شرکت کی اجازت دی گئی۔ پہلے یہ صرف لڑکوں کا حق سمجھا جاتا تھا۔ اگست کے مہینے میں خواتین اور مردوں کو ایک ساتھ پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے اور آزادانہ طور پر سفر کرنے کی اجازت دے کر سفر پر ایک متنازعہ پابندی ختم کر دی گئی جس کی بدولت ایک دیرینہ سرپرستی والی پالیسی ختم ہو گئی جس کے تحت خواتین کی آزادانہ نقل و حمل کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔


اس حالیہ اقدام کی حساس نوعیت کے پیش نظر ریستورانوں میں علیحدگی کو ختم کرنے کے فیصلے کا اعلان سرکاری سعودی ایجنسی کے ذریعے شائع کیا گیا ہے۔ مذکورہ بیان میں عمارتوں، اسکولوں اور کھیلوں کے مراکز کے لیے متعدد نئی منظور شدہ تکنیکی ضروریات کو درج کیا گیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ان فیصلوں کی لمبی فہرست کا مقصد سرمایہ کاروں کو راغب کرنا اور کاروبار کے زیادہ زیادہ مواقع پیدا کرنا ہے۔

اعلان کردہ قواعد و ضوابط میں ریستوران میں خواتین اور مرد کے لیے علیحدہ داخلی راستوں کی ضرورت کو ختم کرنا بھی شامل تھا۔ اس میں یہ اہم اعلان بھی درج تھا کہ ریستورانوں کو اب نجی جگہیں متعین کرنے کی ضرورت نہیں یا دوسرے الفاط مین پارٹیشن کی ضرورت نہیں ہو گی۔ نئے قوانین نے گزشتہ پابندیوں کو تو ختم کر دیا لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا ریستورانوں کو الگ الگ داخلی راستے ختم کرنا ہوں گے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ملک کے بہت سے ایسے قدامت پسند خاندان جہاں خواتین باہر نکلتے ہوئے اپنے بالوں اور چہروں کو ڈھانپتی ہیں، ایسے ریستورانوں میں کھانا کھانے کو ترجیح دیں جہاں خواتین کے الگ سے بیٹھنے کا انتظام ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔