اس صدی کے اواخر تک 80 فیصد ہمالیائی گلیشیئرز پگھل جائیں گے
ہندوکش ہمالیائی پہاڑی سلسلے میں گلیشیئرز غیر معمولی رفتار سے پگھل رہے ہیں اور اگر گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو تیزی سے کم نہ کیا گیا تو رواں صدی کے اواخر تک 80 فیصد گلیشئرز ختم ہو سکتے ہیں۔
کٹھمنڈو سے سرگرم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹیڈ ماونٹین ڈیولپمنٹ نے منگل کے روز جاری اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ آنے والے برسوں میں برفانی تودوں کے ٹوٹنے اور سیلاب آنے کے واقعات زیادہ تیزی سے رونما ہوں گے۔ اور اس سے پہاڑوں سے نکلنے والی 12ندیوں کے کنارے آباد دو ارب سے زائد افراد کے لیے تازہ پانی کی دستیابی متاثر ہو گی۔
ہندوکش ہمالیائی سلسلے کی برف ان ندیوں کے کنارے آباد لوگوں کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ ندیاں ایشیا کے 16ملکوں سے ہو کر گزرتی ہیں اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والے 240 ملین کے علاوہ میدانی علاقوں میں رہنے والے تقریباً 1.65 ارب افراد کو تازہ پانی فراہم کرتی ہیں۔
رپورٹ مرتب کرنے والوں میں سے ایک اور مہاجرت کے امور کی ماہر امینہ مہارجن کا کہنا تھا، "ان پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کا گلوبل وارمنگ بڑھانے میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ بہت زیادہ خطرے میں ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ "ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کی موجودہ کوششیں مکمل طورپر ناکافی ہیں اور ہمیں انتہائی تشویش ہے کہ اگر ہم نے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ تعاون نہ کیا تو یہ کمیونٹیز اس کے مضمرات سے نمٹنے کے قابل نہیں رہیں گی۔"
گلوبل وارمنگ کے اثرات غیر معمولی
مختلف سابقہ رپورٹوں سے بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ، زمین اور برف سے ڈھکے ہوئے علاقے، یعنی کرائیو اسفیئر، ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ حالیہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ماونٹ ایورسٹ کے گلیشیئر پچھلے صرف 30سالوں میں 2000 سال کی برف کھو چکے ہیں۔ امینہ مہارجن کا کہنا تھا، "ہم نے پہلی مرتبہ اس پہاڑی خطے میں کرائیواسفیئر کی تبدیلی سے پانی اور ایکو سسٹم نیز سماج پر پڑنے والے اثرات کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی ہے۔"
منگل کے روز جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2010 کے بعد سے ہمالیائی گلیشیئر اس سے سابقہ دہائیوں کے نسبت 65 فیصد زیادہ تیزی سے غائب ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں میدانی علاقوں میں رہنے والوں کو تازہ پانی کی دستیابی کم ہوتی جارہی ہے۔ تحقیقات میں پتہ چلا کہ ان پہاڑی علاقوں کے موجود 200 گلیشیئر جھیلیں خطرات سے دوچار ہیں اور اس صدی کے اواخر تک ان جھیلوں میں سیلاب آنے کا سلسلہ تیز ہوجائے گا۔
تباہی شروع ہونے کے بعد روکنا مشکل
مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگ دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے ماحولیاتی تبدیلی سے کہیں زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندو کش ہمالیائی خطے میں گلوبل وارمنگ کے اثرات "غیر معمولی اور ناقابل واپسی ہیں۔" ہندو کش ہمالیہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان میں 3,500 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلشیئرز کے پگھلنے کے اثرات محسوس بھی ہونے لگے ہیں۔ اس سال کے اوائل میں بھارت کا پہاڑی قصبہ جوشی مٹھ دھنسنے لگا تھا اور وہاں کے مکینوں کو جلدی میں دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا تھا۔ جوشی مٹھ ہندوؤں کا ایک اہم مذہبی مقام ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان علاقوں میں ایک بار برف پگھلنا شروع ہوگیا تو اسے روکنا بہت مشکل ہو گا۔
امینہ مہارجن کہتی ہیں،" یہ کسی سمندر میں ایک بڑے جہاز کی طرح ہے۔ ایک بار جب برف پگھلنا شروع ہوتا ہے تو اسے روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ گلیشیئز اور بالخصوص ہمالیہ کے بڑے گلیشیئرز کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ایک بار وہ بڑے پیمانے پر پگھلنا شروع ہوں گے تو ایک طویل مدت تک اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔ وہ کہتی ہیں "بیشتر پالسی ساز اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔