بھارت: انسانی فضلہ ہاتھوں سے صاف کرنے کی روایت برقرار

بھارت میں انسانی غلاظت کو ہاتھوں سے صاف کرنے پر قانوناً پابندی کے باوجود مختلف علاقوں میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس میں سینکڑوں لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ یہ کام 'نچلی ذات کے ‘ دلت ہندو کرتے ہیں۔

علامتی تصویر آئی اے این ایس
علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

بھارت سرکار نے جولائی میں دعوٰی کیا تھا کہ ہاتھوں سے انسانی فضلہ کو صاف کرنے کی وجہ سے ملک میں کوئی موت نہیں ہوئی۔ لیکن حکومت کو اس بیان پر سماجی کارکنوں کی سخت نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔ سرکاری حکام نے بعد میں اعتراف کیا کہ نالوں اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے دوران ملک بھر میں 941 صفائی مزدور ہلاک ہوگئے۔

ہاتھوں سے غلاظتوں کی صفائی کے رواج کو ختم کرنے کے لیے سرگرم تنظیم صفائی کرمچاری آندولن کے رہنما بیجواڑہ ولسن کہتے ہیں کہ صرف گزشتہ چار برسوں کے دوران ہی 472 صفائی مزدوروں کی موت ہوگئی جبکہ ہاتھوں سے فضلہ صاف کرنے کی وجہ سے رواں سال اب تک 26 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔


ہاتھوں کے ذریعہ غلاظتوں کی صفائی کے دوران انسانوں کے فضلہ کو نالوں، سیوریج یا سیپٹک ٹینکوں سے نکالا جاتا ہے۔ یہ کام بالعموم ہندو فرقے میں سب سے نچلی ذات کے سمجھے جانے والے دلت کرتے ہیں۔ بڑی تعداد میں دلت خواتین سے بھی بالخصوص دیہی علاقوں میں یہ کام کروایا جاتا ہے۔

غیر انسانی فعل

بھارت سرکار ہاتھوں سے فضلہ کی صفائی کرنے اور سیوریج اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے کام کو الگ الگ زمروں میں تقسیم کرتی ہے۔ لیکن مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ محض گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ دونوں میں عملاً کوئی فرق نہیں ہے۔ صفائی مزدوروں کو انسانی غلاظت کو دوسری جگہ لے جانے اور انہیں ٹھکانے لگانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔


بھارت نے سن 2013 میں ایک قانون بنا کر ہاتھوں کے ذریعہ فضلہ کی صفائی کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس قانون میں ہاتھوں سے فضلہ کی صفائی کو ”غیر انسانی فعل" قرار دیا گیا ہے اور ” ہاتھوں سے غلاظت صاف کرنے والوں کے ساتھ ہونے والی تاریخی ناانصافی اور ان کے وقار کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے" پر زور دیا گیا ہے۔

تاہم یہ قانون اب تک عملاً نافذ نہیں ہوسکا ہے اور بھارت کے مختلف حصوں میں اب بھی ہاتھوں سے انسانی فضلہ کی صفائی کا کام جاری ہے۔ عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کی سن 2019 کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ قانون کے نفاذ کے فقدان اور کمزور قانونی تحفظ نیز صفائی مزدوروں کی خراب مالی حالت کی وجہ سے ہاتھوں سے غلاظت کی صفائی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔


ورلڈ بینک، ڈبلیو ایچ او، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) اور واٹر ایڈ کی طرف سے مشترکہ طورپر کرائی گئی ایک تحقیق کے مطابق صفائی کرنے والے ان مزدوروں کو بہت معمولی اجرت ملتی ہے اور وہ بھی مستقل نہیں۔ تحقیقات میں پایا گیا کہ کئی مرتبہ تو ان مزدوروں کو پیسے بھی نہیں دیے گئے اور اس کے بدلے میں انہیں بچا کھچا کھانا یا دیگر خوردنی اشیاء لینے پر مجبور کیا گیا۔

اترپردیش میں ایک صفائی مزدور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،” کوئی بھی اپنی مرضی سے یہ کام کرنا پسند نہیں کرتا ہے۔ ہم اس پیشے میں پھنس گئے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بہتر زندگی گزاریں۔ اس سماجی لعنت کی وجہ سے ہمیں اور ہمارے خاندان کو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔"


حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق جولوگ غلاظت اٹھانے کا کام کرنے سے منع کرتے ہیں انہیں اعلٰی ذات کے لوگوں کی طرف سے دھمکی اور زیادتی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بھارت سرکار نے گزشتہ برس سووچھ بھارت ابھیان (صفائی مہم) کے تحت متعدد اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ ان میں ہاتھوں سے فضلہ اٹھانے کے خطرناک کام کو اگست 2021 تک ختم کردینے اور صفائی مزدوروں کے ساتھ تفریق آمیز سلوک کا خاتمہ شامل ہے۔ تاہم یہ ہدف ابھی بہت دور ہے۔ سماجی انصاف کے نائب وزیر رام داس اٹھاولے نے گزشتہ ماہ پارلیمان کو بتایا کہ ملک بھر میں ہاتھوں سے فضلہ اٹھانے والے66 ہزار 692 افراد کی نشاندہی کی گئی ہے۔


زندگی کو لاحق خطرات

ہاتھوں سے فضلہ کی صفائی کرنے والوں کوزہریلی گیسوں کی وجہ سے دم گھٹ کر ہلاک ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے۔ وہ اکثر ہیضہ، یرقان، ورم جگر، میننجائٹس، جلدی بیماریوں اور امراض قلب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ انہیں کام کے دوران عام طورپر ضروری اور مناسب حفاظتی آلات اور سامان فراہم نہیں کیے جاتے۔

غیر حکومتی تنظیم سلبھ انٹرنیشنل کے بانی بندیشور پاٹھک کہتے ہیں،” بیشتر اموات سیپٹک ٹینکوں اور نالوں کی صفائی کے دوران ہوتی ہیں۔ حفاظتی اقدامات کی بہت قلت ہے۔ مثلاً نالوں میں میتھین گیس بھرا ہوتا ہے اور وہاں لیمپ لے کرجانا خطرے کو دعوت دینا ہوتا ہے۔"


دہلی سمیت بعض ریاستوں میں نالوں کی صفائی کے لیے اب مشینوں کا استعمال ہونے لگا ہے۔ تاہم ملک کے بیشتر حصوں میں اب بھی ایسی مشینیں دستیاب نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ پتلی گلیوں کی وجہ سے یہ بڑی مشینیں وہاں تک نہیں پہنچ پاتی ہیں اور سیپٹک ٹینکوں کا ڈیزائن بھی اتنا خراب ہے کہ یہ مشینیں ان میں کام نہیں کرپاتی ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پورے ملک میں ہر گھر کو ٹوائلٹ فراہم کرنے کی مہم چلارہی ہے تاکہ کھلے میدان میں رفع حاجت کا رجحان کم ہوسکے۔ بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں بھی صفائی مزدوروں کو دیگر پیشے اپنانے کے لیے تعلیم و تربیت دے رہی ہیں تاکہ انہیں ہاتھوں سے غلاظت کی صفائی کا کام کرنے پرمجبور نہ ہونا پڑے۔


بندیشور پاٹھک کہتے ہیں،” اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تنظیموں اور حکومت کو مل کر پوری لگن اور سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔