ساس بہو کا رشتہ ایک مسئلہ کیوں ہے؟
ساس بہو کا رشتہ بہت اہم بھی ہے اور بہت نازک بھی۔ کہیں کھلی کھٹ پھٹ ہے تو کہیں خاموش سرد جنگ۔ اس سماجی مسئلے پر تحقیق کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ یہ مسئلہ ملکیت کا ہے۔
ساس ایک سنجیدہ اکیڈمک تحقیق کا موضوع ہے۔ اگر کہا جائے کہ بہترین ساس ایک مسئلہ ہے تو بےجا نہ ہو گا۔ اس مسئلے کا تعلق ملکیت سے اس طرح سے ہے کہ جب ماں اپنے بیٹے کو صرف اپنی ذات تک محدود تصور کرے اور بیوی شوہر نامدار کو اس حد تک اپنا بنانا چاہے کہ وہ والدین، رشتہ داروں، دوست احباب سے دور ہو جائے تو ایسی صورت میں کچھ اس طرح کا نقشہ سامنے آتا ہے کہ بیٹا درمیان میں ہے، والدہ اپنی طرف آنے کا آرڈر جاری کرتی ہے اور بیوی میکے روٹھ کر جانے کا عندیہ دیتی ہے۔
ایسے باہمی نزاعات، کھینچا تانی سے بیٹا جس کرب ناک اذیت سے گزرتا ہے اس کا شاید کوئی حساب نہیں۔ ایک طرف ایسی ہستی ہے، جس کے قدموں تلے جنت ہے اور دوسری جانب شریک حیات۔ دونوں کی حیثیتیں اپنی جگہ اہم و مستحکم ہیں۔ یہی وہ پوائنٹ ہے، جہاں لڑکے والدہ اور بیوی کے حقوق کے درمیان توازن نہیں رکھ پاتے۔
ساس بہو کا مسئلہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور آج تک قائم ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بہو جب خود ساس بنتی ہے تو اس کے رویے اور شفقت میں کمی آ جاتی ہے۔
دراصل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ساس نے اپنی زندگی کے آغاز میں سسرال میں اچھے دن نہیں دیکھے ہوتے لہٰذا وہ دل میں مصمم ارادہ کر لیتی ہے کہ آنے والی بہو کو کچھ تو پتہ ہونا چاہیے کہ سسرال میں کیسے رہا جاتا ہے۔ پکی پکائی کھیر کی عادی تو نہ بنے ذرا جوکھم تو اٹھائے۔ افسوس یہ بات ساس کو بھی سوچنی چاہیے کہ چند سال قبل جس بات کو وہ شدید ناپسند کرتی تھی۔ آج کی اپ ٹو ڈیٹ بہو کے لیے کیوں کر پسندیدہ ہو سکتی ہے؟ لہذا دیکھا گیا ہے کہ اکثر ساسیں انتقاماً اپنی بہو کو نشانہ بنا کر تسکین محسوس کرتی ہیں۔ حالانکہ عقلی رویہ رکھنے والی خواتین اپنی بہو سے شفقت سے پیش آتی ہیں کیونکہ وہ اس تکلیف کا احساس کرتے ہوئے اپنی بہو کو اذیت نہیں دینا چاہتی۔
پاکستانی معاشرے میں اکثر گھرانواں میں ساس اپنی بہو سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ ان سے بھی اسی شدت سے محبت کرے جیسا کہ اپنے والدین سے کرتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ساس کو بے جا توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیے تاکہ بعد میں مایوسی اور شکوے شکایات نہ ہوں۔
انہی گھریلو سازشوں سے گھر کا سکون غارت ہو جاتا ہے۔ ان نزاعات کا تصفیہ کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ ایسی صورتحال میں بڑے سمجھدار اور زیرک مرد بھی بے بس ہو جاتے ہیں کہ ''کروں تو کیا کروں''۔ شوہر کو چاہیے کہ ایک کان سے والدہ کی اور دوسرے سے بیوی کی سنے اور ان دونوں کانوں کے درمیان جو دماغ اسے قدرت نے عطا کیا ہے، اس سے سوچ کر فیصلہ کرے کہ گھر ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اعتدال کی کون سی راہ اختیار کی جائے۔
ستم ظریفی کہ لڑکیوں کی اس بات کی ڈیمانڈ بڑی سرعت سے پھیل رہی ہے کہ ایسا رشتہ تلاش کیا جائے، جہاں ساس نہ ہو۔ حیف! کچھ گھرانوں میں لڑکیوں کی مائیں اس فرسودہ سوچ کا شکار ہوتی ہیں کہ اگر ان کی بیٹی ساس کو اپنی ماں کے برابر گردانے گی تو اس طرح وہ اپنی بیٹی کو کھو دے گی۔ اس لیے لڑکیوں کے تحت الشعور میں ظالم ساس کا ایک تاثر پیوست کرایا جاتا ہے کہ سسرالی رشتوں میں بہو کی سب سے بڑی دشمن اس کی ساس ہوتی ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ اس قسم کی باتوں سے کبھی گھر نہیں بستے۔ دوسری جانب بہو کو بھی چاہیے کہ ساس کے ساتھ خوش تر تعلقات بنائے رکھے۔ بہو کو سسرال میں بہترین رویہ و برتاؤ سے اپنی تربیت کی دھاک بٹھانی ہو گی۔
ہمارا یہ معاشرتی المیہ ہے کہ عدم برداشت کا مرض تو جیسے من حیث القوم ہمیں لاحق ہو چکا ہے۔ ایک دوسرے کی باتوں کو ہم برداشت نہیں کرتے۔ گھر میں سب سے پہلے ساس کو اعلی ظرف کا مظاہرہ کرنا ہو گا کیونکہ وہ "لیڈی آف ہاؤس" ہوتی ہے۔ بہو کو بیٹی سمجھے اور ہر چیز پیار سے سمجھائے۔ کسی دوسرے سے بہو کی برائی نہ کرے۔ ہر وقت بہو کی ٹوہ میں نہ رہے۔ اگر معاشرے میں حقوق کی پاسداری ہو گی تو یقیناً لڑائی جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی دیکھنے کو آئے گی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔