بہتر زندگی کی امید میں قبرص پہنچنے والے بنگلہ دیشیوں کا مستقبل تاریک
اچھے روزگار اور بہتر زندگی کی امید لے کر قبرص آنے والے بہت سے بنگلہ دیشیوں کی امیدیں اس یورپی ملک کے پناہ گزین کیمپوں میں دم توڑ جاتی ہیں۔
جمہوریہ قبرص کے دارالحکومت نکوسیا کے باہر پورنارا کے پناہ گزین کیمپ میں داخلہ پانے کی امید میں دو بنگلہ دیشی شہری بڑی بے صبری سے منتظر ہیں حالانکہ کیمپ میں پہلے ہی گنجائش سے کہیں زیادہ تارکین وطن مقیم ہیں۔
ان دونوں بنگلہ دیشی شہریوں کی عمریں بیس اور پچیس برس کے درمیان ہیں۔ ان کے چہروں پر مایوسی اور خوف کے آثار نمایاں ہیں۔ ان میں سے ایک 24 سالہ سلیم حسین بتاتے ہیں کہ دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے حکام نے انہیں اس کیمپ میں داخل ہونے سے منع کر دیا۔ حسین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے پاس کوئی پاسپورٹ نہیں ہے، انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والا ایک بنگلہ دیشی اسمگلر ہمیں اس ملک کے جنوبی حصے میں پہنچانے سے قبل شمالی قبرص لے کر آیا تھا۔‘‘
پورنارا کا تارکین وطن کا کیمپ قبرص میں پناہ لینے کے خواہش مند تارکین وطن کا سب سے بڑا کیمپ ہے۔ یہاں تقریباﹰ ایک ہزار افراد کے لیے رہائش کی گنجائش ہے لیکن اس سے دو گنا تعداد میں لوگ یہاں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 200 بنگلہ دیشی ہیں۔ اس کیمپ میں رہنے والوں کو بہت سی شکایات ہیں۔ ایک تو بھیڑ بہت زیادہ ہے اور دوسری طرف باتھ روم کی سہولیات بھی ناکافی ہیں جبکہ کھانے پانی کی بھی راشن بندی ہے۔
قبرص کے صدر نیکوس انستاسیادیس نے اس کیمپ کے ایک حالیہ دورے کے دوران اس کی صورت حال کو 'افسوس ناک‘ قرار دیا تھا۔ سلیم حسین اور ان کا ہم سفر انعام الحق شمالی قبرص میں سیبوں کے ایک باغ میں ملازمت کی امید میں ڈھاکہ سے چھ جون کو روانہ ہوئے تھے۔ ان دونوں میں سے ہر ایک نے انسانوں کے ایک مقامی اسمگلر کو تقریباً 7360 ڈالر ادا کیے تھے۔ اس اسمگلرنے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے یورپ میں دیگر اسمگلروں کے ساتھ رابطے ہیں اور یہ دونوں دبئی کے راستے قبرص پہنچے تھے۔
قبرص سن 1974میں اس وقت دو حصوں میں منقسم ہوگیا تھا، جب ترکی نے اس جزیرے پر ہونے والی ایک بغاوت کے بعد یونان کے ساتھ مل کر حملہ کر دیا تھا۔ قبرص کے دونوں حصوں کے درمیان 180 کلومیٹر طویل راہداری ہے، جس اقوام متحدہ بفر زون کہا جاتا ہے۔ شمالی حصے کی ترک قبرصی جمہوریہ اور وہاں کی حکومت کو صرف ترکی تسلیم کرتا ہے جبکہ جنوبی حصے کی یونانی قبرصی جمہوریہ اور اس کی حکومت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہیں اور یہی قبرص یورپی یونین کا رکن ملک بھی ہے۔
لوگ انسانوں کے اسمگلروں کے جال میں کیسے پھنس رہے ہیں؟
بنگلہ دیش کے جمہوریہ شمالی قبرص کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس لیے ڈھاکہ سے یہاں تک براہ راست سفر کرنا ممکن نہیں ہے۔ انسانوں کے اسمگلر اسی بات کا فائدہ اٹھاکر لوگوں کو بنگلہ دیش سے کسی تیسرے ملک کے راستے شمالی قبرص پہنچانے کا انتظام کرتے ہیں۔
حسین بتاتے ہیں، ''ہم سیاحتی ویزے پر ڈھاکہ سے دبئی پہنچے۔ وہاں دو راتیں گزارنے کے بعد اسمگلروں نے ہمیں ترکی کے راستے شمالی قبرص روانہ ہونے کے لیے کہا۔ ہمیں اپنی پروازیں تین مرتبہ بدلنا پڑیں اور ہر مرحلے میں بعض بنگلہ دیشی ایجنٹوں نے ہمارے سفر کو ممکن بنانے میں ہماری مدد کی۔‘‘ شمالی قبرص میں ان دونوں کو ایک تعمیراتی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ یہ کمپنی شمالی نکوسیا میں ایرکان کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو جدید بنانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
اس کمپنی کے ایک ملازم طارق کہرامان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دو بنگلہ دیشی شہری چند دیگر پاکستانی کارکنوں کے ساتھ اس کمپنی میں کام کے لیے آئے لیکن چند دنوں بعد ہی لاپتہ ہوگئے تھے۔ انہوں نے بتایا، ''ہم نے ان کی تلاش کی۔ یہ ورکر بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے بہانے اپنے پاسپورٹ لے گئے تھے لیکن پھر وہ کام پر کبھی واپس نہ لوٹے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ بہت سے بنگلہ دیشی اس پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ ''ہم ان کو شمالی قبرص میں رہنے والے بنگلہ دیشی ایجنٹوں کے توسط سے لے کر آئے ہیں۔‘‘
لیکن شمالی نکوسیا آنے کے بعد حسین کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی کہانی کافی مختلف ہے۔ حسین نے بتایاکہ ان سے سیبوں کے ایک باغ میں ملازمت دلانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن پھر ایک کار میں بٹھا کر رات کی تاریکی میں قبرص کے جنوبی علاقے میں اسمگل کیے جانے سے قبل انہیں دیگر بنگلہ دیشی اور پاکستانی تارکین وطن کے ساتھ ایک مکان میں رکھا گیا تھا۔ اپنی جان کے خوف سے ان تارکین وطن نے انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے اسمگلروں کے نام بتانے سے انکار کر دیا۔
پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند بنگلہ دیشیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ
قبرص حکومت کے مطابق تقریباً 90 فیصد تارکین وطن ناقص اسٹوڈنٹ ویزا سسٹم کا فائدہ اٹھا کر ترکی اور شمال کے ترک قبرصی علاقے کے راستے جنوبی حصے کی جمہوریہ قبرص میں داخل ہوتے ہیں۔ ایسے ہزاروں افراد اقوام متحدہ بفر زون کو پارکر کے جنوب میں یونانی قبرص میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حکومت کے مطابق رواں سال کے ابتدائی پانچ ماہ کے دوران تقریباً 10 ہزار افراد نے پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دیں، جو کہ گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے دگنی تعداد ہے۔ پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی تعداد جنوبی قبرص کی مجموعی آبادی کا تقریباً پانچ فیصد بنتی ہے، جو کہ یورپی یونین میں ایک ریکارڈ ہے۔
بنگلہ دیش دنیا کے ان دس چوٹی کے ملکوں میں شامل ہے، جہاں سے لوگ دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کرنے کے سب سے زیادہ خواہش مند ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال 600 سے زائد بنگلہ دیشی شہریوں نے پناہ حاصل کرنے کے لیے وہاں درخواست دی تھی۔ اس سال اب تک 800 درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ لیکن ان میں سے تقریباً سبھی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں کیونکہ بنگلہ دیش کو ایک محفوظ ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کے لوگ عمومی طور پر بین الاقوامی تحفظ حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں۔
پناہ حاصل کرنے کا مقصد قبرص میں ملازمت
بہت سے بنگلہ دیشی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پناہ حاصل کرنے کی ان کی درخواستیں مسترد کر دی جائیں گی۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس لیے درخواستیں دیتے ہیں کہ انہیں پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دہندہ کی قانونی حیثیت حاصل ہو جائے۔ یوں انہیں قبرص میں کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے، اس وقت تک جب تک ان کی درخواستوں پر باقاعدہ فیصلہ نہ ہو جائے۔
بنگلہ دیشی تارکین وطن کے امور پر نگاہ رکھنے والے ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پناہ کے خواہش مند شخص کی درخواست پر جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا، وہ یہاں کئی برسوں تک کام کر سکتا ہے۔ اگر اس کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے، تب بھی وہ اس کے خلاف درخواست دائر کر سکتا ہے۔ اس طرح اسے طویل عرصے تک یورپی یونین کے اس رکن ملک میں کام کرتے رہنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ کچھ لوگ تو پانچ سے سات برس تک کام کرتے رہتے ہیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے کائرینیا اور شمالی نکوسیا جیسے شہروں میں رہنے والے متعدد بنگلہ دیشیوں سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مقامی یونیورسٹیوں اور کمپنیوں کے لیے 'ایجنٹ‘ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح سینکڑوں بنگلہ دیشی نوجوانوں کو منفعت بخش ملازمتیں اور بہتر زندگی کا لالچ دے کر یہاں لایا جاتا ہے۔ جب وہ شمالی قبرص پہنچتے ہیں، تب انہیں حقیقی صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ وہ پہلے ہی ہزاروں یورو خرچ کر چکے ہوتے ہیں، اور انہیں کوئی دوسرا راستہ بھی دکھائی نہیں دیتا، اس لیے ان کے سامنے پناہ کی درخواست دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے انسانوں کی اسمگلنگ سے متعلق شمالی قبرصی حکومت نے ڈی ڈبلیو کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کا کوئی جواب نہ دیا۔
قبرص میں قانونی مہاجرت
جمہوریہ قبرص کا کہنا ہے کہ کسی دوسرے ملک کے طالب علم اور ورکر قانونی طریقے سے اس ملک میں آ سکتے ہیں۔ اس لیے ترک وطن کرنے والوں کو انسانوں کے اسمگلروں کے جال سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرنا چاہیے۔
قبرص میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کے ڈائریکٹر آندریاس ورناوا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طلبہ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آ سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ کار امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں میں رائج طریقے ہی کی طرح ہے۔ وہ براہ راست درخواستیں دے سکتے ہیں۔‘‘
ورناوا نے کہا، ''جو لوگ قبرص میں مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لیے آنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی یہی طریقہ کار ہے۔ کمپنیوں میں ملازمت دلانے کے لیے بعض نمائندے بیرون ملک سے ورکرز کو لاتے ہیں۔ آپ کو قبرص آنے کے لیے انسانوں کے اسمگلروں کو کوئی رقم دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
قبرص میں بنگلہ دیش کے اعزازی قونصلر روبین پاؤلو کلائیدیجیان بھی اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بنگلہ دیش سے ہر سال پانچ سو سے سات سو کے قریب ورکر قانونی طور پر قبرص آتے ہیں اور مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے کوئی غیر قانونی راستہ اختیار کرنے کے بجائے قانونی طریقہ کار اختیار کریں۔‘‘
سلیم حسین اور انعام الحق کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ انسانوں کے اسمگلروں نے ان سے ہزاروں یورو وصول کرنے کے باوجود انہیں نکوسیا کے ایک پناہ گزین کیمپ پر چھوڑ دیا۔ انعام الحق مایوسی سے کہتے ہیں، ''ہمارے پا س واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہماری قسمت میں جو لکھا ہے، اسے قبول تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔