سلطنت روما کا زوال، جرمنی کے شہر ٹریئر میں نمائش جاری

جرمن شہر ٹریئر ’’رومی سلطنت کا زوال ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ نمائش کے لیے موزوں ترین مقام ہے۔ شہر کے تین عجائب گھر یہ سمجھنے میں مدد کر رہے ہیں کہ کس طرح عظیم الشان سلطنت گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئی۔

سلطنت روما کا زوال، جرمنی کے شہر ٹریئر میں نمائش جاری
سلطنت روما کا زوال، جرمنی کے شہر ٹریئر میں نمائش جاری
user

Dw

قدیم روما سلطنت برطانیہ سے بحیرہ اسود اور اسپین سے مصر تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی فوجی صلاحیتوں اور تکنیکی اور ثقافتی کامیابیوں کا کوئی ہم عصر نہیں تھا۔ اس کے باسی صفائی ستھرائی کی سہولیات اور آبی نالیوں کے ذریعے منتقل کیے گئےتازہ پانی سے مستفید ہوتے اور گرم فرش والے گھروں میں رہتے تھے۔ یہاں تک کے سلطنت کے زیر سایہ دور دراز علاقوں میں بھی مناسب سڑکیں موجود تھیں اور تجارت فروغ پاتی تھی۔ رعایا گرم پانی کے قدرتی چشموں کے ذریعے خود کو تازہ دم کرتے، سرکس کے میدانوں میں تفریح کے دوران بہترین کھانے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

آج بھی دنیا بھر میں اس عظیم الشان سلطنت کی بے شمار آثار موجود ہیں۔ سترہ قبل از مسیح میں قائم ہونے والا جرمنی کا سب سے پرانا شہر ٹرٹریئر بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ یہ شہر چوتھی صدی میں ''آگسٹا ٹریورم‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، یہ کئی دہائیوں تک رومی سلطنت کی ایک نشست تھی۔ پورٹا نیگرا (لاطینی میں سیاہ دروازہ) کوہ آلپس کے شمال میں رومی سلطنت کی وراثت کا ایک اور ثبوت ہے۔ اس علاقے کو 1986ء میں یونیسکو کے ثقافتی ورثے می‍ں شامل کر لیا گیا تھا۔


لہٰذا ٹریئر ''رومی سلطنت کا زوال ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ نمائش کے لیے یہ ایک موزوں ترین مقام ہے۔ اس شہر کے تین عجائب گھر اس دلچسپ سوال کا جواب دینے میں مدد کرتے ہیں کہ کس طرح ایک عظیم سلطنت گمنامی کے اندھیروں میں دھندلا گئی۔

رینیشز لینڈس میوزیم میں آثار قدیمہ کی کئی اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ان میں پیرس کے لوور، فلورنس میں اوفیزی اور الجزائر میں موسی قومی نوادرات کے عجائب گھروں سے مستعار لی گئی اشیاء شامل ہیں۔ اس نمائش میں دکھایا گیا ہے کہ رومیوں کی طرف سے چھوڑے گئے سیاسی خلا میں کلیسا کے نمائندے کس طرح داخل ہوئے ۔ ٹریئر کا اشٹٹ میوزیم سیمیونسٹیفٹ رومیوں کی فنی اور ثقافتی تاریخ پیش کرتا ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ رومی سلطنت ایک لمحے میں تباہ نہیں ہوئی تھی۔ فنون لطیفہ کی ایک مؤرخ اور لینڈس میوزیم ٹریئر کی پراجیکٹ منیجر این کرٹزے نے کہا، ''اگر یہ اتنا آسان ہوتا تو پھر ہمارے پاس یہ بڑی نمائش نہ ہوتی اور محققین صدیوں سے اس موضوع سے وابستہ نہ ہوتے۔‘‘


کرٹزے کا کہنا ہے، ''ظاہر ہے کہ رومی سلطنت کا حجم ہمیشہ سے ایک پاگل کر دینے والا چیلنج تھا۔‘‘ رومی جرنیلوں نے زیادہ سے زیادہ ممالک پر قبضہ کر کے انہیں سلطنت کا حصہ بنا لیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ فوجی اخراجات وقت کی ضرورت تھے تاکہ بحر اوقیانوس سے فرات تک پھیلی ہوئی مملکت کی15,000 کلومیٹر طویل بیرونی سرحدوں کی حفاظت کی جا سکے۔ اسی سبب سلطنت کو اپنے سلامتی امور کی انجام دہی کے لیے دوسری قوموں اور قبائل پر بھروسہ کرنا پڑتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رومی اپنی سرحدوں کی حفاظت خود کرنے سے قاصر ہوتے گئے کیونکہ ان کی تعداد کم ہو رہی تھی۔ اس کی وجہ سلطنت میں لوگوں کو میسر آسائشوں کی وجہ سے شرح پیدائش میں کمی ہونا تھی۔ اس دوران فوج میں خالی جگہیں بھرنے کی ضرورت تھی۔ رومی فوجوں کو مضبوط بنانے کے لیے غیر ملکی فوجیوں کو''وحشی‘‘ کہلائے جانے والے قبائل کی صفوں سے بھرتی کیا گیا۔ لیکن نئے آنے والے اصل رومی نہیں بنے۔ ان کے دلوں میں وہ ہمیشہ جرمن رہے اور وہ ہمیشہ اپنے رومی افسران کے احکامات پر عمل نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان غیر ملکی فوجیوں نے تنخواہوں کی ادائیگی یا رومی سلطنت کے اندر اپنی حیثیت کے حوالے سے خانہ جنگیوں کا آغاز بھی کیا۔ ان اندرونی تنازعات نے سلطنت کو بہت کمزور کر دیا تھا۔

دوسری صدی عیسوی میں سلطنت کی توسیع رک چکی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سرکاری خزانہ جنگی لوٹ مار سے نہیں بھرا تھا اور نہ ہی مزدوروں کی منڈی میں نئے غلام آ سکے تھے۔ 429 ء سے 439ء عیسوی کے درمیان وانڈلز نے رومی سلطنت کے سب سے اہم صوبے شمالی افریقہ کو فتح حاصل کر لیا تھا ۔ یہ علاقہ رومیوں کے لیے خوراک کی رسد گاہ تھی۔ اس امیر صوبے سے حاصل ہونے والی آمدنی رک گئی اور حکمرانوں نے اپنے اخراجات کا متبادل کہیں اور سے تلاش کر لیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ روم ٹیکسوں میں اضافہ کرتا رہا جس سے بہت سے باشندے فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ زوال پذیر اعلیٰ طبقہ پرتعیش زندگی گزار رہا تھا اور اسے سیاست میں بہت کم یا کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ حکمران طبقات کے رویے کی ایک مشہور مثال شہنشاہ کیلیگلا ہے۔ مؤرخین سویٹن اور کیسیئس ڈیو کے مطابق، کیلیگلا نے اپنے گھوڑے کا نام 'قونصل‘ رکھا اور اسے ایک محل عنایت کر کے اس کی خدمت کے لیے غلام بھی رکھے۔


کئی صدیوں تک رومی مختلف دیوتاؤں اور ان سے منسوب اقدار پر یقین رکھتے تھے۔ تاہم شہنشاہ تھیوڈوسیئس کے دور 380ء عیسوی میں عیسائیت کو ریاست کا واحد مذہب قرار دیا گیا جس سے رومی خیالات کمزور ہو گئے۔ این کرٹزے نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''چرچ کے نوجوان ادارے نے ایسے بہت سے کام سنبھال لیے تھے، جو اس سے قبل رومی سلطنت کی انتظامیہ کر رہی تھی۔ تاہم یہ تباہی کی وجہ نہیں تھی بلکہ گرتی ہوئی رومی سلطنت میں تبدیلی کا عمل تباہی کا باعث بن رہا تھا۔ 395ء عیسوی میں شہنشاہ تھیوڈوسیئس اعظم کی موت کے بعد سلطنت کو اس کے بیٹوں میں مغربی اور مشرقی روم کے نام پر تقسیم کر دیا گیا۔ مشرق میں قسطنطنیہ شہنشاہ کی رہائش گاہ بن گیا۔ مغرب میں پہلے میلان، پھر ریوینا اور کبھی روم بادشاہ کے رہنے کا مقام بنا۔ روم ابھی بھی ایک سلطنت سمجھی جاتی تھی، لیکن اس پر دو شہنشاہوں کی حکومت تھی۔

لیکن مشرقی روم 1453ء میں سلطان محمد دوم کے قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد رومیوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ سلطنت کے مغربی حصے پر جرمن قبیلے کے رہنما اوڈوکر نے 476 ء میں شہنشاہ روملس آگسٹلس کو شکست دے کر قبضے میں لے لیا تھا۔


کرٹزے کے مطابق ابتدائی طور پر چوتھی صدی میں سلطنت میں بہت کم بحران نظر آتا تھا۔ دور قدیم کے اواخر میں بھی بہت سے تجارتی تعلقات کی وجہ سے روم شہر کو پھلنے پھولنے میں مدد ملی۔ لیکن رومی سلطنت کی بجائے چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں قائم تھیں، جن پر فرینک، برگونڈین یا گوتھ حکومت کرتے تھے۔ رومی سلطنت کے پاس نہ تو کوئی مؤثر انتظامیہ تھی اور نہ ہی بچی کچھی سلطنت کے بنیادی ڈھانچےکی دیکھ بھال کا کوئی طریقہ کار تھا۔ تاہم پھر آہستہ آہستہ تبدیلیاں نظر آنے لگیں، خاص طور پر شہروں میں۔ آبی ذخائر خراب ہو گئے کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کی دیکھ بھال کیسے کی جائے۔ آرائشی باغات کی بجائے جرمن قبائل سبزیاں لگاتے تھے۔ سنگ مرمر کے مجسمے تباہ کر دیے گئے کیونکہ مکانات کی تعمیر کے لیے مواد کی ضرورت تھی۔ قدم قدم پر رومی ثقافت بھی ختم ہونے لگی۔

نمائش ''رومی سلطنت کا زوال‘‘ ٹریئر میں 27 نومبر تک جاری رہے گی۔ این کرٹزے کا کہنا ہے کہ اس تقریب میں حال سے بھی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ غائب ہوتی فصلیں اور فاقہ کشی روم کی قسمت پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہو گی اور اس کے نتیجے میں اس وقت لوگ نقل مکانی کر گئے ہوں گے۔ اور جس طرح کووڈ نے ہمیں تباہ کیا ہے، ہو سکتا ہے اسی طرح کی بیماریوں نے رومیوں پر بھی حملہ کیا ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔