زبان کا اخلاقی زوال
جب برائی عام ہو جائے تو آہستہ آہستہ خود ہی قابل قبول بھی ہوجاتی ہے۔اس کے بعد یہی برائی فخر کی بات لگنے لگتی ہے۔ آج ایسے الفاظ "کول" سمجھے جاتے ہیں، جن کے استعمال کا بھی کبھی تصور نہیں تھا۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں کہیں سے گزرتے ہوئے بھی اگر کوئی نامناسب لفظ سن لیتے تو عجیب شرمندگی، احساس جرم اور غصے کی کیفیت گھیر لیتی اور ہم بہن بھائی نہ آپس میں نظریں ملا پاتے اور نہ ہی والدین کی طرف دیکھنے کی جرات ہوتی۔ ایسی زبان استعمال کرنے والا بھی آس پاس سے گزرتی فیملی پر نظر پڑتے ہی کچھ شرمندہ ہو کر خاموش ہو جاتا تھا۔ ٹیلی وژن، ریڈیو یا کتب میں ایسے الفاظ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ عام محفلوں میں بھی ہمیشہ زبان میں لحاظ قائم رکھا جاتا تھا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایسا کیا ہوا کہ زبان سے لحاظ آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک پرائیوٹ اسکول کی ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں دو طالبات مل کر تیسری طالبہ کو زدوکوب کر رہی تھیں۔ یہ مناظر تو پریشان کن تھے ہی مگر ساتھ ساتھ جو زبان سنائی دے رہی تھی وہ سب والدین کا دل دہلانے کے لیے کافی تھی۔ کیا کہانی تھی، کون حق پر تھا اور کون غلط، یہ ایک الگ قصہ ہے مگر اسکول کے اندر اونچی آواز میں بے دھڑک ایسی زبان استعمال کرنا کیوں کر ممکن ہوا؟ کسی کا خوف یا لحاظ تو دور کی بات وہاں تو کچھ تفریح کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ لڑکے قہقہے لگاتے ہوئے ویڈیو بنا رہے تھے اور لڑکیاں فخریہ انداز میں گالم گلوچ کر رہی تھیں۔ ایک تعلیمی ادارے میں یہ سب عام اور قابل قبول کیسے ہو گیا؟ یہ مكتب کی کیسی کرامات ہیں، جہاں تہذیب سے زیادہ جہالت ٹپک رہی ہے؟ یہ يقيناً ایک لمحہ فکریہ ہے کہ یہ ایک ویڈیو تو منظر عام پر آگئی مگر کیا یہ روز کے معمولات کی عکاس بھی ہے؟
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ گالی نئی نسل کی ایجاد تو بہرحال نہیں۔ نازیبہ الفاظ کا استعمال تو ازل سے ہے مگر پہلے یہ کچھ طبقات تک محدود ضرور تھا۔ جن طبقات میں ایسی زبان استعمال کی جاتی تھی انہیں عام طور پر بدتہذیب اور جاہل سمجھا جاتا تھا۔ اب یہ فرق آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی کہہ سکتے ہیں کہ اس جديد دور میں پڑھا لکھا طبقہ ترغیب دینے کی بجائے خود غلط روش پر راغب ہو رہا ہے۔ اس سب میں سوشل میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یوٹیوب، فیس بک اور انسٹاگرام پر تو سچ جھوٹ کو پرکھنا بھی آسان نہیں تو زبان کی صفائی تک جانے کی کسی نے کیا زحمت کرنی۔
جب برائی عام ہو جائے تو آہستہ آہستہ خود ہی قابل قبول بھی ہو جاتی ہے۔ اس سے اگلا قدم سب سے خطرناک ہے، جب برائی قابل قبول ہونے کے بعد فخر کی بات لگنے لگتی ہے۔آج ایسے ایسے الفاظ "کول" سمجھے جاتے ہیں اور بچے بچے کی زبان پر ہیں، جن کے استعمال کا کبھی گھر کے اندر یا تعلیمی اداروں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
فیس بک کے مختلف گروپ میں اکثر لوگ اپنے مسائل شیئر کرتے ہیں اور عام طور پر لکھنے کے انداز سے پتا لگتا ہے کہ وہ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہیں۔ وہ بھی ہر دوسری تیسری سطر میں باآسانی "ایف ورڈ" ایسے استعمال کرتے ہیں، جیسے کوئی ثواب کا کام ہے۔ یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں یہ وبا کسی فیشن کی طرح پھیلتی چلی جارہی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر سب سے زیادہ دکھ اور تکلیف تب ہوتی ہے، جب ایسی سوچ اچھے مقاصد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ حقوق نسواں پر بات کرتے ہوئے پتہ نہیں کیوں ایک طبقے کو ایسا لگتا ہے کہ خواتین کو گندی زبان کا استعمال کرنے اور بری عادات اپنانے کی آزادی چاہیے۔ کچھ ایسی ویب سیریز اور فلمیں بنائی گئی ہیں، جہاں پیغام اور کہانی بامقصد ہونے کے باوجود زبان اس قدر نازیبہ تھی کہ نہ میں خود دیکھ پائی اور نہ ہی کسی اور کو تجویز کر سکتی ہوں۔ جن اصل مسائل اور ناانصافی پر بات ہوئی وہ سب اسی فحش زبان کے تلے دب گیا.
اس سب کا ذمہ دار کون ہے اور آخر اس کا کیا حل ہے؟ یہ بہت مشکل سوالات ہیں مگر ان کے جواب ڈھونڈنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ اخلاقی پستی کا سفر چلتا ہی چلا جائے گا۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر ہر مواد تک رسائی، يقيناً ایک بڑی وجہ ہے۔ والدین کا باخبر رہنا اور بروقت اصلاح کرنا انتہائی اہم ہے.
والدین کی ترجیحات بھی اہم نقطہ ہے۔ کیا مہنگے اور مقبول سکول میں پڑھانا اچھی تربیت کا بھی ضامن ہے؟ وہ ویڈیو تو کچھ برعکس جواب دے رہی ہے۔ جتنی فکر ہمیں بچوں کے گریڈ کی ہے۔ اتنی ہی کردار کی پختگی کی بھی ہوئی چاہیے۔ بچوں کی صحبت پر نظر رکھنا اور اچھے برے کا فرق سمجھانا بہت مشکل تو ہے مگر بہت ضروری بھی ہے۔ اسی طرح سب سے اہم تو یہ ہے کہ ماں باپ خود ایسی زبان استعمال نہ کریں اور بچہ گھر کے باہر سے جو سیکھے اسے بھی کبھی قابل قبول نہ بننے دیں۔ سختی بغاوت پر اکساتی ہے اور دوستوں کی غلط عادات بھی "کول" اور آزادی کا نشان لگنے لگتی ہیں۔ لہذا دوستانہ رویے سے برائی سے روکنا ضروری ہے۔
ماں باپ کا آپس میں اور اپنے اپنے سماجی حلقے میں اچھی بات کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ بچہ جو دیکھتا ہے وہی سیکھتا ہے۔ چاہے وہ دوست احباب ہوں یا خاندان ہو۔ موضوع چاہے گھرداری ہو یا سیاست ہر جگہ مناسب الفاظ کا چناؤ اگلی نسل کی تربیت کے لیے بہت اہم ہے۔ گزشتہ ہفتے ماؤں کا عالمی دن بھرپور طریقے سے منایا گیا۔ ٹیلی وژن پر پوری نشریات کا مرکز ماں رہی۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اپنی والدہ کے ساتھ سیلفی لگائی۔ واٹس ایپ گروپ اور اسٹیٹس میں ہر جگہ ماں کی عظمت کو سلام کیا گیا۔ یہ سب دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ کوئی تو ایسا دن ہے جس پر سب اتفاق کرتے ہیں۔ یعنی ماں کی تکریم وتعظیم سے متعلق کوئی دو رائے نہیں۔ اگر ہم سب کو ماں کے مقام کا مکمل ادراک ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم گالی میں سے بھی ماں کا لفظ نکال دیں۔
یہ کیسی منافقت ہے کہ ہم ماں کی عظمت پر شاعری اور تقریریں کرتے نہیں تھکتے مگر بے دھڑک انگریزی، اردو اور ہر علاقائی زبان میں ماں کی گالی بھی دینا قابل قبول سمجھتے ہیں۔ جب میں کسی پڑھے لکھے شخص کو شائستہ گفتگو کرتے دیکھتی ہوں تو بہت متاثر ہوتی ہوں مگر وہی شخص جب مزاح یا غصے میں زبان کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھتا تو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے کسی کلف لگے سفید چمکتے ہوئے کرتے میں شکن آ جائے۔ ہمیں کہیں تو لکیر کھینچنی ہے، انفرادی کوشش کرنی ہے اور خود سے عہد کرنا ہے کہ خود بھی زبان صاف رکھیں گے اور اگلی نسل کو بھی یہی سمجھائیں گے۔
شکوه ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔