جرمنی میں سب سے بڑا مندر افتتاح کے لیے تیار
برلن کی بھارتی کمیونٹی کے عطیات کی مدد سے شری گنیشا مندر کی تعمیر میں دس سال سے زائد کا عرصہ لگا۔ منتظمین کو امید ہے کہ وہ نومبر میں چھ روزہ افتتاحی تقریب کے دوران یہاں عبادت کا آغاز کر دیں گے۔
ستر سالہ وشنا ناتھن کرشنا مورتی نے تقریباً 20 سال قبل برلن میں ایک ہندو مندر کی تعمیر کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کا آغاز کیا تھا۔ آج وہ جرمنی کے ڈھلتے ہوئے موسم گرما کی دھوپ میں فخر سے کھڑے ہو کر اس مندر کی نئی عمارت کی خصوصیات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
وہ یہاں استعمال کیے گئے رنگوں اور تعمیراتی مواد کے انتخاب کی وضاحت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں امید ہے کہ نومبر میں ایک چھ روزہ تقریب کے دوران اس مندر کی افتتاحی تقریب ہو گی۔ کرشنا مورتی نے مسکراتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم دیوتاؤں کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
ایک تعمیراتی منصوبے کی تکمیل کے لیے تقریباﹰ بیس سال ایک طویل وقت ہے لیکن یہ اس بارے میں بھی بہت کچھ بیان کرتا ہے کہ 'مہمان کارکن‘ کہلائے جانے والے لوگ آخر کار برلن والے کیسے بن جاتے ہیں اور جرمن دارالحکومت مذہبی لحاظ سے کیوں اتنا زیادہ متنوع ہو رہا ہے۔کرشنا مورتی ڈی ڈبلیو کو بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنی بیوی کے ساتھ تقریباً 50 سال پہلے مغربی برلن میں پہنچے اور کیسے انہیں الیکٹریکل کمپنی AEG کے ساتھ ''تین ڈوئچے مارک فی گھنٹہ‘‘ میں کام ملا (آج یہ رقم تقریباً ڈیڑھ یورو کے برابر ہو گی)۔
پھر کیسے انہوں نے مندر کی تعمیر کے مقصد سے ایک انجمن کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے کہا، ''یہ مندر میرے لیے ایک خواب ہے۔ ایک ہندو ہونے کے ناطے میں گھر میں بھی ہر عبادت کر سکتا ہوں لیکن میں اسے دوسرے لوگوں کے ساتھ نہیں کر سکتا۔ اسے دوسروں کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ کرنے کے لیے اور لطف اندوز ہونے کے لیے جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
کرشنا مورتی کی تنظیم شری گنیشا ہندو مندر کی تعمیر کے لیے سن 2004 سے سرگرم ہے۔ حکام نے مندر کی ایسوسی ایشن کو کروئسبرگ اور نیوکولون کے اضلاع کے درمیان واقع ہازن ہائیڈے پارک کے کنارے پر زمین کا ایک ٹکڑا تفویض کیا تھا۔ کرشنامورتی برلن میں اس مندر کو "دیوتاؤں کا تحفہ" کہتے ہیں۔ اس پر تعمیراتی کام 2010 میں شروع ہوا۔ اس کی تکمیل کے لیے مختلف تاریخیں مقرر کی گئیں لیکن تعمیر کے لیے رقم ناکافی ہونے کی وجہ سے اس کی تکمیل پر ایک لمبا عرصہ لگا۔
اب اس مندر کی تعمیر تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ کرشنامورتی کا کہنا ہے، ''ہم نے اس کی تعمیر اپنے عطیات سے انجام دی۔ اس میں برلن سینیٹ، ضلعی اتھارٹی یا وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی تعاون شامل نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ہم ادھار رقم سے مندر نہیں بنانا چاہتے تھے۔ ہماری آنے والی نسلوں کو بالآخر اسے واپس کرنا پڑتا۔ اس لیے ہم نے عطیات پر انحصار کیا۔‘‘
برلن میں قائم بھارتی سفارت خانے کے مطابق بھارت سے پندرہ ہزار لوگ برلن میں مقیم ہیں۔ تاہم دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد بیس ہزار تک ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والے ہزاروں بھارتی نوجوان بھی آئی ٹی کمپنیوں کی وجہ سے برلن کی طرف کشش رکھتے ہیں۔
برلن میں اس وقت زیر تعمیر سب سے اونچی اونچی عمارت کو مقامی طور پر ''ایمازون ٹاور‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اس مندر سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آن لائن شاپنگ کی عالمی کمپنی ایمازون کے پاس اس ٹاور کی اٹھائیس منزلیں ہوں گی اور یہی برلن میں وہ جگہ ہے جہاں نوجوان بھارتی موجود ہیں۔ مندر کی شروعات کرنے والوں کا کہنا ہے، '' گزشتہ پانچ سالوں میں ہمارے پاس عطیات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ نوجوان لوگ دل کھول کر عطیات دینے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
عطیات کی آمد نے اس سال کام میں تیزی سے پیش رفت ممکن بنائی۔ رواں موسم گرما میں پچاس کے قریب مندروں کی تعمیر کے ماہر کاریگر یا استھپتی جائے تعمیر پر موجود رہے۔ مندر کی عمارت کے سامنے اب خوبصورت چمکدار رنگوں میں تقریباً 18 میٹر بلند ٹاور کھڑا ہے۔ اب یہاں مندر کے اندر دیوتاؤں کے مجسموں کی تنصیب ہونا باقی ہے۔ کرشنامورتی بھارت میں ان لوگوں کے ماہرانہ کام کی وضاحت کرتے ہیں جو پانچ ہزار سال پرانی تشریحات کے مطابق بڑی محنت سے ٹھوس پتھر سے مجسمے سازی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مندر میں کل 27 مجسمے ہونے چاہییں۔
کرشنا مورتی اس مندر کی تعمیر کے آخری مراحل میں کام کی رفتار سے مطمئن ہیں اور انہیں امید ہے کہ نومبر میں روشنیوں کے ہندو تہوار دیوالی تک یہاں کام مکمل کر لیا جائے گا اور پھر اس کے افتتاح کے لیے چھ روزہ تقریب شروع کی جائےگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔