طالبان کو اکیسویں صدی میں لانے میں مدد کریں، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی ڈپٹی سکریٹری جنرل نے مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف کارروائیوں کو ختم کرنے اور طالبان کو تیرہویں صدی سے اکیسویں صدی میں لے جانے میں مدد کریں۔
اقوام متحدہ کی ڈپٹی سکریٹری جنرل امینہ محمد نے بتایا کہ افغانستان کے حالیہ دورے کے دوران انہوں نے طالبان حکام سے بات چیت میں افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف اقدامات بند کرنے کے لیے ہر ممکن" ذرائع" کا استعمال کیا۔
نائجیریا کی سابق وزیر اور اقوام متحدہ کی ڈپٹی سکریٹری جنرل امینہ محمد نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ایک وفد کے ساتھ افغانستان کا دورہ کیا تھا اور طالبان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم سمیت چار وزاء کے ساتھ ایک ہی موضوع پر بات کی۔
امینہ محمد نے بتایا کہ طالبان عہدیداروں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی انہوں نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والا ماحول پیدا کرنے جیسے اقدامات کیے لیکن انہیں تسلیم نہیں کیا گیا۔ امینہ محمد کا کہنا تھا، "میں کہوں گی کہ ان(طالبان) کے تحفظ کی تعریف ہمارے نزدیک خواتین پر ظلم کے مترادف ہے۔"
کابل اور قندھار میں ہونے والی ان ملاقاتوں کے بعد رواں ہفتے اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی مشن کے سربراہ مارٹن گریفتھس اور دیگر بڑے امدادی گروپوں کے سربراہان نے بھی افغانستان کا دورہ کیا، جس میں انہوں نے طالبان پر دباؤ ڈالا کہ وہ افغان خواتین پر قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری امدادی گروپوں کے لیے کام کرنے پر پابندی کے اپنے حکم کو واپس لیں۔
انسانی اصولوں پر زور
گریفتھس نے کہا کہ اس دورے کا مقصد طالبان کو یہ سمجھانا تھا کہ امدادی کارروائیوں کو شروع کرنا اور ان میں خواتین کو کام کرنے کی اجازت دینا انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفد کا پیغام سادہ تھا اور وہ یہ کہ پابندی امدادی ایجنسیوں کے کام کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔
گریفتھس کا کہنا تھا،"میں نے جن (افغان طالبان رہنماوں) سے ملاقاتیں کی ان کا یہی کہنا تھا کہ وہ افغان خواتین کے کام کرنے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ان کے اس حقوق سے بھی آگاہ ہیں۔ اور یہ کہ وہ ان رہنما اصولوں پر کام کر رہے ہیں جن کے ذریعے ان خواتین کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے گا اور دنیا اسے مناسب وقت پر ہوتا ہوا دیکھے گی۔" امینہ محمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان رہنماوں سے بات چیت میں انسانی اصولوں پر زور دیا اور انہیں یاد دلایا کہ انسانی ہمدردی میں غیر امتیازی سلوک سب سے اہم نکتہ ہے۔
'خواتین سے براہ راست بات کرنا بھی حرام ہے'
امینہ محمدکے بقول، "طالبان کی طرح کی ایک سنّی مسلمان کے طور پر میں نے افغان وزراء کو بتایا کہ جب لڑکیوں کے لیے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم پر پابندی اور خواتین کے حقوق چھیننے کی بات ہو تو، وہ اسلام کی پیروی نہیں کر رہے ہیں اور لوگوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔"
اقوام متحدہ کی ڈپٹی سکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ایک طالبان رہنما نے کہا کہ ان کے نزدیک ہم (خواتین) سے براہ راست بات کرنا بھی حرام ہے اور بات چیت کے دوران انہوں نے ہماری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
امینہ محمد نے بتایا کہ طالبان نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وقت آنے پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق واپس لوٹا دیے جائیں گے۔ جب اقوام متحدہ نے اس کے لیے کوئی وقت مقرر کرنے کے لیے دباو ڈالا تو طالبان رہنماوں کا کہنا تھا کہ ایسا "جلد" ہوگا۔
اقوام متحدہ کے وفد نے کابل پہنچنے سے قبل مسلم اکثریتی ممالک بشمول انڈونیشیا، ترکی، خلیجی ممالک اور سعودی عرب کا بھی دورہ کیا تھا۔ جہاں امینہ محمد کے مطابق طالبان کی جانب سے خواتین پر عائد پابندیوں کے خلاف انہیں وسیع تر حمایت ملی۔
'مسلم ممالک اکٹھے ہوں'
امینہ محمد نے بتایا کہ اقوام متحدہ اور تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی) کی جانب سے مارچ کے وسط میں 'مسلم دنیا میں خواتین' کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی تجویز زیر غور ہے۔ انہوں نے کہا،"یہ بہت ضروری ہے کہ مسلم ممالک اکٹھے ہوں۔ ہمیں لڑائی کو خطے تک لے جانا ہے اور ہمیں اس کے بارے میں جرات مندانہ اور حوصلہ مند فیصلوں کی ضرورت ہے کیوں کہ خواتین کے حقوق اہم ہیں۔"
امینہ محمد نے کہا کہ ہمیں افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ "ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ طالبان تیرہویں صدی سے اکیسویں صدی میں کیسے جاتے ہیں۔ اور یہ سفر صرف ایک روز میں ممکن نہیں ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ طالبان پر کس طرح زیادہ سے زیادہ دباو ڈالا جائے تاکہ وہ "بین الاقوامی خاندان" میں شمولیت کے اصولوں پر عمل پیرا ہو سکیں۔
امینہ محمد نے کہا،"کوئی بھی کسی مسلم ملک یا شریعت (قانون) کا مخالف نہیں ہے۔ لیکن انہیں انتہاپسندی اور خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ نہیں بننے دیا جانا چاہئے۔ یہ یکسر ناقابل قبول ہے اور ہم اس بات پر قائم ہیں۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔