افغان طالبان میں خواتین کے حقوق پر اختلافات ہیں، اقوام متحدہ

افغانستان میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کچھ رہنماؤں نے کھلے ذہن کا مظاہرہ کیا لیکن کچھ نے واضح طور پر مخالفت کی۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

ایک اعلیٰ خاتون عہدیدار کی قیادت میں اقوام متحدہ کے وفد نے خواتین کی صورت حال کا براہ راست جائزہ لینے کے لیے کابل، قندھاراور ہرات کا چار روزہ دورہ جمعے کے روز مکمل کر لیا۔ وفد نے طالبان انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جاری اقدامات ختم کرے۔

اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے دورے کے بعد بتایا کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کچھ طالبان عہدیداروں نے کھلے ذہن کا مظاہرہ کیا لیکن کچھ نے واضح طور پر اس کی مخالفت کی۔ انہوں نے تاہم وفد سے ملاقات کرنے والے طالبان کے کسی عہدیدار کا نام ظاہر نہیں کیا۔


اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق نے بتایا کہ ان ملاقاتوں میں 20 سال کی جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا اور اگست 2021 میں اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں پر عائد کی گئی پابندیوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔

فرحان حق نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ڈپٹی سکریٹری جنرل امینہ محمد کی سربراہی میں دورہ کرنے والے وفد نے پایا کہ''طالبان کے کچھ عہدیداروں نے تعاون کا مظاہرہ کیا اور انہیں پیش رفت کے کچھ آثار دکھائی دیے۔‘‘ ترجمان کے مطابق، ''اہم بات یہ ہے کہ ان (طالبان) عہدیداروں کے ساتھ مفاہمت کی جائے جوسخت موقف اختیار کرنے والے حکام کے مقابلے میں ان کی بات سننے کو تیار تھے۔‘‘


خواتین کے حقوق کی واپسی اہم

فرحان حق نے زور دیتے ہوئے کہا، 'خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے طالبان کے درمیان مختلف سوچ ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ کی ٹیم کوشش کرے گی کہ وہ ان اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے مل کر کام کریں جو ہم چاہتے ہیں اور جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو مکمل طور پر معاشرے کا دوبارہ حصہ بنانا اور ان کے حقوق واپس لوٹانا ہے۔‘‘

نائجیریا کی سابقہ وزیر امینہ محمد کے ساتھ اس دورے میں صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کو فروغ دینے والی اقوام متحدہ کی خواتین کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باہوس اور اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے سیاسی امور خالد خیاری بھی شامل تھے۔


سن 2021 میں حکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے اپنے پہلے دور اقتدار کی طرح ہی آہستہ آہستہ اسلامی قانون یا شریعت کی اپنی سخت تشریح کو دوبارہ نافذ کرتے ہوئے لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے اسکول جانے سے روک دیا اور خواتین کے ملازمت، عوامی مقامات اور جم جانے پر پابندی لگا دی۔

انسانی خدمات کے لیے خطرہ

گ‍‍زشتہ سال دسمبر میں طالبان نے بین الاقوامی امدادی تنظیموں میں بھی خواتین کی شمولیت پر پابندی لگا دی تھی جس سے وہ امدادی کارروائیاں مفلوج ہوگئیں جو لاکھوں افغانوں کو زندہ رکھنے میں مدد کر رہی تھیں۔


طالبان کی اس پابندی سے ملک بھر میں انسانی خدمات کے لیے خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ جنگ زدہ ملک میں امدادی تنظیموں کے لیے کام کرنے والی ہزاروں خواتین کو آمدن سے بھی ہاتھ دھونا پڑ رہے ہیں جنہیں اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے اس کی اشد ضرورت ہے۔

طالبان نے تاہم صحت کے شعبے سمیت کچھ شعبوں میں خواتین کو محدود کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ فرحان حق کا کہنا تھا،''خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ پیچھے کی جانب ہٹتا ہوا ایک بہت بڑا قدم ہے۔ ہم مزید کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم اس محاذ پر کام جاری رکھیں گے۔‘‘


امینی محمد نے بعد میں ایک بیان میں کہا، ''طالبان کے لیے ان کا یہ پیغام بہت واضح تھا کہ یہ پابندیاں افغان خواتین اور لڑکیوں کو ایک ایسے مستقبل کی طرف دھکیل رہی ہیں جو انہیں اپنے گھروں میں قید کرنے اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی سے عبارت ہے۔ یہ پابندیاں کمیونٹیز کو ان کی خدمات سے محروم کرتی ہیں۔‘‘

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انسانی امداد کی فراہمی اس اصول پر مبنی ہے جس میں خواتین سمیت تمام امدادی کارکنوں کے لیے بلا روک ٹوک اور محفوظ رسائی کی ضرورت ہے۔


افغانستان ایک خوشحال ملک بنے

امینہ محمد کا کہنا تھا، ''ہماری اجتماعی خواہش ہے کہ افغانستان ایک خوشحال ملک ہو جو خود اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے مسفید ہو اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہو لیکن اس وقت افغانستان ایک خوفناک انسانی بحران اور موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ کرہ ارض پر سب سے زیادہ کمزور ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود خود کو الگ تھلگ کر رہا ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے وفد نے اس دورے کے دوران مغربی شہر ہرات کا دورہ بھی کیا اور تینوں شہروں میں انسانی ہمدردی کے کارکنوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور خواتین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ کابل پہنچنے سے قبل اس وفد کے ارکان نے مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے علاوہ انڈونیشیا، پاکستان اور ترکی کا دورہ بھی کیا تھا۔


انہوں نے اسلامی کانفرنس کی 57 ملکی تنظیم او آئی سی، اسلامی ترقیاتی بینک اور انقرہ اور اسلام آباد میں افغان خواتین کے گروپوں کے ساتھ ساتھ دوحہ میں مقیم افغانستان کے سفیروں اور خصوصی ایلچی کے ایک گروپ سے ملاقاتیں کیں۔

خیال رہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اقوام متحدہ میں اس کی نشست اشرف غنی کی قیادت والی سابقہ افغان حکومت کے پاس ہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔