طالبان حکومت کے ایک سو ایام، غربت سے پریشان افراد اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور
طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے ایک سو دن رواں ہفتے مکمل ہو گئے ہیں۔ طالبان اقتدار میں اس وقت آئے تھے جب اگست میں امریکی اور نیٹو کی افواج نے افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کیا تھا۔
طالبان قیادت کو بھی ایک سو دن مکمل ہونے کا احساس ہے اور کئی تقریبات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ اس موقع پر طالبان کے کارکنوں نے امریکی ساختہ بکتر بند گاڑیوں کو اپنی پریڈ میں شامل کیا۔ امریکی فوجی کئی افغان شہروں میں ٹینکوں اور بکتربند گاڑٰوں کو بہتر حالت میں چھوڑ گئے تھے۔
طالبان قیادت کےایک سو دن ضرور مکمل ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک اس حکومت کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہو سکی ہے اور عالمی سطح پر ان کی تنہائی ابھی بھی ختم ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔
طالبان کو درپیش داخلی مسائل
افغانستان کے اندر مالی مسائل کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ شہروں اور دیہات میں خوراک کی انتہائی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ غربت کی سطح انتہائی زیادہ ہے۔ خشک سالی کی وجہ سے دیہات کے لوگوں کی داخلی ہجرت جاری و ساری ہے۔ اس ملک کو کووڈ انیس کی افزائش کا بھی سامنا ہے۔ غربت سے تنگ افراد اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے عالمی برادری کی توجہ افغانستان میں جنم لینے والے انسانی المیے کی جانب کئی مرتبہ مبذول کرانے کی کوششیں کی ہیں۔
امدادی دینے والوں کا مذاکراتی سلسلے
کابل پر حکومت رکھنے والے طالبان کو شدید و سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ملک کے بینک بند ہیں۔ بینکوں کی اپنے منجمد اثاثوں تک رسائی نہیں ہے۔ لوگوں کو تنخواہیں دینا بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ جہاں تنخواہیں دینا ممکن ہے وہاں بھی بھوک اور افلاس کی آفت کو دور رکھنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
اس وقت بھی بڑے امدادی ادارے طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں جرمنی کے خصوصی مندوب برائے افغانستان یاسپر ویک بھی کابل گئے ہوئے تھے۔ طالبان نے انہیں بھی آزادنہ طور پر امداد تقسیم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اب موم سرما بتدریج شدید ہو رہا ہے اور وہاں لوگوں کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
ایک بنیادی مسئلہ
افغانستان کا سب بڑا مسئلہ طالبان حکومت کو بین الاقوامی شناخت حاصل نہ ہونا ہے۔ اس باعث ملک کے اندر بینکوں کا نظام معطل ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ افغانستان کا بینکنگ نظام، عملی طور پر منہدم ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے سارے ملک کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے، جو سنگین معاشرتی عدم استحکام کا باعث بن چکا ہے۔
سارے ملک میں مالیات کا کوئی نظام فعال نہیں۔ ابھی بھی بین الاقوامی برادری طالبان کو ایک خطرناک دہشت پسند گروپ کے طور پر دیکھتی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی برادری طالبان حکومت کے خواتین کے ساتھ سلوک اور شخصی آزادی پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ اور دوسرے انٹرنیشنل ادارے بھی ہاتھ آگے بڑھانے سے گھبرا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی ڈیبرا لیونز کا کہنا ہے کہ افغانستان اس وقت انسانی تباہی کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے۔
چینی و پاکستانی امداد اور مغرب
ابھی تک طالبان کے بڑے حامیوں چین اور پاکستان نے بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان کی جانب سے امداد کی فراہمی ضرور سامنے آئی ہے۔ ابھی ایک روز قبل پاکستان نے اپنی سرزمین سے بھارت کو افغانستان امداد پہنچانے کی اجازت دی ہے۔ حالیہ ایام میں چین بھی ایک ہزار ٹن خوراک ٹرکوں کے ذریعے روانہ کر چکا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کابل کو قریب پانچ ارب روپے کی امداد فراہم کرے گا، اس کے علاوہ طبی امداد، خوراک وغیرہ بھی پاکستان کی جانب سے افغانستان پہنچائی جائے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بتایا کہ قطر میں اگلے ہفتے طالبان کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع ہو گی۔ دو ہفتے تک چلنے والے مجوزہ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ کریں گے۔
ٹام ویسٹ نے دو ہفتے قبل ہی طالبان کے نمائندوں سے پاکستان میں ملاقات کی تھی۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 9 اور 10 اکتوبر کو ہوا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔