تاجک خواتین اپنی بقا کے لیے ’پولی گیمی‘ کا رخ کرتی ہیں
سنگین معاشی حالات کے شکار ملک تاجکستان میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد انہیں پولی گیمی یا ’کثیر ازدواج‘ کی ترغیب دلا رہی ہے۔
وسطی ایشائی ریاست تاجکستان میں سنگین معاشی حالات خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کثیر ازدواج کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ لیکن ایسا انہیں بہت محدود حقوق اور سماجی بدنامی کے عوض کرنا پڑتا ہے۔ کچھ سالوں سے تاجکستان میں ایک سے زیادہ شادیوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ مذہب کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر بیرون ملک نقل مکانی ہے۔
غربت کی بلند شرح اور روزگار کی منڈی کے سنگین حالات سے دوچار ملک تاجکستان تقریباً نو ملین شہریوں کی آبادی پر مشتمل ہے، جس میں سے روز گار کی تلاش میں بیرون ملک جانے والے شہریوں کی تعداد تقریبا ایک ملین بنتی ہے۔ ورلڈ بینک اور ورلڈ اکنامک فورم کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی ترسیلات بہت سے خاندانوں کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور یہ ملکی قومی پیداوار کا تقریباً بیس سے تیس فیصد بنتا ہیں۔
پولی گیمی یا متعدد شادیاں بنیادی طور پر اعلیٰ اور متوسط آمدنی والے مردوں کے ہاں کی جاتی ہیں اور بہت سی خواتین اسے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے مالی تحفظ حاصل کرنے کا واحد راستہ سمجھتی ہیں۔ ایک اہم امر یہ ہے کہ تاجک ریاست پولی گیمی کو تسلیم نہیں کرتی تاہم مسلم لاء مردوں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
'دوسری بیوی بننے کے لیے موزوں ہوں‘
منیزہ کا تعلق مغربی ہسور کے علاقے سے ہے۔ انہوں نے 19 سال کی عمر میں شادی کی اور اپنی ساس کے ساتھ اکثر جھگڑوں کی وجہ سے صرف چار ماہ بعد طلاق لے لی۔ منیزہ کہتی ہیں،''اگر آپ طلاق یافتہ ہیں تو آپ صرف دوسری بیوی بننے کے قابل ہیں۔ قسمت آپ کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑتی۔ خاندان اور معاشرہ بدقسمتی سے اب مجھے قبول نہیں کرتے۔‘‘
طلاق کے فوراً بعد منیزہ کو نکاح کے ذریعے دوسری یا تیسری بیوی بننے کی پیش کشیں موصول ہوئیں، جو کہ ایک روایتی اسلامی شادی کی رسم ہوتی ہے۔ اس میں ان کی مالی مدد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ منیزہ نے مزید کہا، ''پہلے تو میں نے انکار کر دیا کیونکہ میں نے ابھی تک اپنے پہلے شوہر سے علیحدگی کی کارروائی مکمل نہیں کی تھی۔ لیکن اپنی مالی حالت کی وجہ سے اور ایپارٹمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے، مجھے ان پیش کشوں پر غور کرنا پڑا۔‘‘ منیزہ جلد ہی ایک مقامی اہلکار کی دوسری بیوی بن گئیں۔ وہ کہتی ہے،''خوش قسمتی سے وہ کم عمر ہے، صرف 27 سال کا ہے۔‘
منیزہ کا نیا شوہر ہفتے میں تین دن اُس کے ساتھ رہتا ہے اور باقی وقت اپنے گھر میں اپنی پہلی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ گزارتا ہے۔ منیزہ کے مطابق پہلی بیوی دوسری شادی کے بارے میں جانتی ہے اور اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''اس وقت میں بہت خوش ہوں کہ میری زندگی میں کوئی ہے، جو میرا خیال رکھتا ہے۔ آپ روایات اور ثقافت کے خلاف نہیں جا سکتے، مجھے زندگی کو ویسے ہی لینا ہے، جیسے وہ ہے اور اللہ نے جو کچھ دیا ہے اس کے لیے اس کا شکر ادا کرنا ہے۔‘‘
سیتورا ختلون کے علاقے سے تعلق رکھتی اور دارالحکومت دوشنبے میں کام کرتی ہیں، جہاں وہ ایک کرائے کے کمرے میں رہتی ہیں۔ 29 سالہ سیتورا ایک رشتے میں منسلک تھیں لیکن وہ رشتہ چل نہ سکا اور اب انہیں یقین ہے کہ ان کی عمر اسے پہلی بیوی بننے کی اجازت نہیں دے گی۔ اسی لیے وہ دوسری بیوی بننے پر غور کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں،''میرے والدین اب مجھے قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ ایک طویل عرصے سے میری شادی کا انتظار کر رہے ہیں۔ میرے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میری معمولی تنخواہ مجھے طویل عرصے میں اس کمرے کو کرائے پر لینے کی اجازت نہیں دیتی، خاص طور پر اس لیے کہ قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور اجرتیں کم ہیں۔‘‘
انہوں نے طویل عرصے سے ایک بہتر معیار زندگی اور ایک خاندان بنانے کا خواب دیکھ رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''میں دوسری، تیسری یا چوتھی بیوی بننے کے لیے تیار ہوں۔ اگر وہ مجھے تنہائی سے بچنے اور میرے مستقبل کے بچوں کے لیے مالی استحکام فراہم کرنے میں مدد کرتا ہے تو کیوں نہیں؟‘‘
شادی کی سرکاری رجسٹریشن کے بغیر اس قسم کے رشتوں میں خواتین کو کوئی قانونی تحفظ یا جائیداد کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ایک سماجی کارکُن میرزو ژیفا نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اگر بچے ایسی شادی میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ باپ کے نام پر رجسٹرڈ ہوتے ہیں، تو ہی وہ کسی مالی مدد یا وراثت کی توقع کر سکتے ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔