بھارت میں تعلیمی گرانٹ کے خاتمے پر مسلمان طالب علم پریشان
یہ تعلیمی گرانٹ یونیورسٹی طلبہ کے لیے اہم مالی سہارا بنی رہی ہے۔ ایسے طلبہ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ان کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔
ایسے ہی میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ رئیس احمد بھی شامل ہیں، جو بھارتی ریاست اتر پردیش میں قائم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور جن کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول اتنا آسان نہیں تھا۔
والد کے انتقال کے بعد ان کے تعلیمی اخراجات زیادہ تر ان کے بڑے بہن بھائی پورے کرتے رہے۔ تاہم پی ایچ ڈی کے انہوں نے اپنے تمام تر اخراجات خود ہی پورے کئے اور اس کے لیے ان کا انحصار مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ پر رہا۔ یہ فیلوشپ بھارت میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ایسے طالب علموں کو مالی معاونت فراہم کرنے کی اسکیم ہے جو ایم فل یا پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔
احمد کا کہنا ہے، ''اگر میں فیلو شپ حاصل نہ کر پاتا تو میرا نہیں خیال کہ میں پی ایچ ڈی جاری رکھ پاتا، کیونکہ اعلیٰ تعلم کے لیے کئی طرح کے اخراجات پورے کرنا ہوتے ہیں۔‘‘ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے دسمبر کے مہینے میں مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کی منسوخی کا اعلان اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔
آٹھ دسمبر کو پارلیمنٹ میں اٹھائے جانے والے ایک سوال کے جواب میں وزیر برائے اقلیتی امور اسمرتی ایرانی کا کہنا تھا کہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ''حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے لیے جاری کئی دیگر فیلوشپ اسکیموں کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے اور اقلیتی طالب علموں کو پہلے ہی اس طرح کی کئی اسکیموں سے مدد مل رہی ہے۔‘‘
بھارت کے اقلیتی طلبہ کے لیے مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کس طرح مددگار ہے
بھارتی حکومت کی جانب سے مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ مسلم، بودھ مت، مسیحی، جین مت، پارسی اور سکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو فراہم کی جاتی تھی۔ سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دور حکومت میں قائم کی گئی سچر کمیٹی کی تجویز کردہ سفارشات کی روشنی میں سن 2009 میں یہ فیلوشپ معتارف کروائی گئی تھی۔ سچر کمیٹی کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے سماجی، معاشی اور تعلیمی حالات کا جائزہ لینا تھا۔
سن 2009ء میں اس کمیٹی کے پیش کردہ نتائج کے مطابق کُل آبادی میں سے 20 سال سے زائد عمر کے سات فیصد افراد گریجویٹ یا ڈپلومہ رکھتے تھے جبکہ مسلم آبادی میں یہ تناسب چار فیصد سے بھی کم تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلمانوں کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت عملی پالسیوں کو مذید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
گو یہ فیلو شپ تمام اقلیتی برادریوں کے طالب علموں کے لیے دستیاب تھی تاہم اس سے زیادہ تر مسلمان طلبہ ہی مستفید ہوئے۔ وزارت اقلیتی امور کی جانب سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق سن 2018-2019 میں یہ فیلوشپ حاصل کرنے والے 70 فیصد سے زائد طالب علم مسلمان تھے۔ بھارت میں مذہبی تنظیم جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے نیشنل سکریٹری، فواد شاہین کے مطابق، ''کئی برسوں کے دوران اس فیلو شپ سے ہزاروں ایسے پسماندہ مسلمان طالب علم مستفید ہوئے جو دوسری صورت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سےقاصر ہی رہتے۔‘‘
ایک طالب علم جو اترپردیش کی ایک سرکاری جامعہ سے STEM کی فیلڈ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''پی ایچ ڈی کے ابتدائی دو برسوں میں مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کے لیے میں اہل نہیں تھا اس لیے میں اس نفسیاتی دباؤ کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہوں جس میں سے کوئی طالب علم کسی مالی اعانت کے بغیر تحقیق جاری رکھنے پر گزرتا ہے۔‘‘
کونسل برائے سماجی ترقی کی جانب سے سن 2019ء میں ایک تحقیق جاری ہوئی جس میں تعلیم سے متعلق سرکاری شماریات کا تجزیہ کیا گیا۔ اس کے مطابق سن 2010ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لینے والوں کی مجموعی شرح 23 فیصد تھی۔ جبکہ ایسے داخلہ لینے والے مسلمان طالب علوں کی شرح محض 13.8فیصد۔ رپورٹ کے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مسلمان برادری کی شمولیت کے امکانات سب سے کم ہیں۔
فیصلے کی منطق پر طالب علموں کا سوال
بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کے مطابق 31 مارچ 2022ء سے قبل فیلوشپ کے لیے کوالیفائی کرنے والے طالب علم اس اسکیم سے اپنی باقی ماندہ تعلیمی مدت تک مستفید ہوتے رہیں گے، اس کے باوجود اچانک اس گرانٹ کے خاتمے کے فیصلے نے بھارتی مسلمانوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔
حکومت کی جانب سے اس گرانٹ کی منسوخی کے پیچھے دی جانے والی یہ وجہ کہ یہ فیلوشپ دیگر اسکیموں سے ممثلت رکھتی ہے، اس پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ احمد کے مطابق اگر اس وجہ کی بات کی جائے تو یہ وجہ تو دیگر پسماندہ گروہوں کے لیے وقف اسکالرشپ اسکیموں پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔
بدھ مت برادری سے تعلق رکھنے والے ہماچل پردیش کی مرکزی جامعہ کے طالب علم سواربھا آنند کے مطابق، ''ایک اسکیم کا دوسری اسکیم سے مماثلت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ ایک طالب علم ایک وقت میں صرف ایک ہی فیلوشپ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی ہی وجہ دیتے ہوئے حکومت دیگر پس منظر سے تعلق رکھنے والے محققین کے لیے دی جانے والی حکومتی اسکیموں کی بندش بھی کر سکتی ہے۔
دسمبر میں کیے گئے اس فیصلے کے بعد کئی طلبہ تنظیمیں ملک بھر میں احتجاج کر رہی ہیں۔ کئی سیاسی رہنما اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھاتے ہوئے حکومت سے اس فیصلے کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پارلیمانی رکن عمران پرتاب گڑہی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس حکومتی فیصلے کو اقلیت اور طالبعلموں کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ہزاروں افراد متاثر ہوں گے۔ بھارت کی وزارت اقلیتی امور نے اس معاملے پر ڈی ڈبلیو کی جانب سے رابطے کی کوششوں کا جواب نہیں دیا ہے۔
مدحت فاطمہ، نئی دہلی (ا ب ا/ع ف)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔