استاد شاگرد کا رشتہ: اسٹوڈنٹ ایک کسٹمز بن گیا ہے اور استاد ایک سیلز پرسن
دنیا بھر 5 اکتوبر کو 'ورلڈ ٹیچرز ڈے‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد معاشرے میں اساتذہ کے ناقابل فراموش کردار کا اعتراف کرنا اور ان کی بے پناہ خدمات پرخراج تحسین پیش کرنا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں استاد کی تہذیبی شخصیت کیا ہوا کرتی تھیِ؟ اس کا اپنے شاگردوں سے کیسا رشتہ ہوا کرتا تھا اور بدلتے ہوئے سماجی حالات نے اس رشتے پر کیسے اثرات مرتب کیے ہیں۔
استاد اور شاگرد کا ایک خوبصورت تہذیبی تعلق جو کہیں ماضی میں کھو سا گیا ہے
اپنے شعری مجموعے 'شام شہر یاراں‘ کے آغاز میں فیض صاحب مرزا ظفر الحسن سے ایک گفتگو کرتے ہوئے اپنے طالب علمی کے دور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”گورنمنٹ کالج چلے گئے جہاں بہت ہی فاضل اور مشفق اساتذہ سے نیاز مندی ہوئی، پطرس بخاری تھے، اسلامیہ کالج میں ڈاکٹر تاثیر تھے بعد میں صوفی تبسم صاحب آ گئے۔ ان دنوں اساتذہ اور طلبہ کا رشتہ ادب کے ساتھ ساتھ کچھ دوستی کا سا بھی ہوتا تھا۔ کالج کی کلاسوں میں تو شاید ہم نے کچھ زیادہ نہیں پڑھا۔ لیکن ان بزرگوں کی محبت اور محبت سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی محفلوں میں ہم پر بہت شفقت ہوتی تھی اور ہم وہاں سے بہت کچھ حاصل کر کے اٹھتے تھے۔"
پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے والے انگریزی ادب کے استاد ڈاکٹر ذوالفقار حیدر کہتے ہیں کہ یہ رویہ بہت حد تک خالص مشرقی انداز زیست کی عکاسی کرتا ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ہمارا روایتی محاورہ تھا 'زانوئے تلمذ تہ کرنا‘ یا 'گرو نوں متھا ٹیکنا،‘ جو عقیدت سے لبریز ہے۔ مجھے تقریباً سات برس مختلف یورپی تعلیمی اداروں سے پڑھنے کا موقع ملا لیکن استاد شاگرد کا جیسا تہذیبی تعلق ہمارے ہاں رائج رہا ویسا کم از کم میں نے یورپ میں نہیں دیکھا۔ وہاں استاد شاگرد کا تعلق ایک خوبصورت رسمی انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ جبکہ ہمارے کلچر کی بو باس کئی طرح کے غیر رسمی طور طریقوں سے اپنا ورثہ آنے والی نسلوں تک منتقل کرتی آئی ہے۔ استاد اور شاگرد کا ایک خوبصورت تہذیبی تعلق جو کہیں ماضی میں کھو سا گیا ہے۔"
بدلتے ہوئے سماجی حالات میں استاد کا بدلنا ناگزیر تھا
اوپن یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور سماجی دانشور شاہد صدیقی استاد شاگرد کے بدلتے ہوئے سماجی رشتے سے پہلے اس پس منظر کا ذکر ضروری سمجھتے جس کی وہ دونوں بطور انسان اکائیاں ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”آج سے چند دہائیاں قبل بحیثیت مجموعی زندگی سادہ اور خواہشات کم تھیں سو استاد کی زندگی بھی عام شہری کی طرح سادہ رنگوں سے عبارت تھی۔ وہ کلاس کے بعد شام کو گھنٹوں طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بحث کر سکتا تھا۔ زندگی نے اس کے لیے گنجائش رکھی ہوئی تھی۔"
ان کے بقول ”کارپوریٹ کلچر اور انڈسٹری نے ہماری ضروریات متعین کرنا شروع کر دیں۔ مختلف برینڈز سماجی قد و قامت کا معیار بن گئے۔ استاد بھی اسی معاشرے کا فرد تھا اس لیے ممکن نہ تھا کہ وہ اس تیز رو تبدیلی کے سامنے مزاحمت کرتا۔ بدلتے ہوئے سماجی حالات میں استاد کا بدلنا ناگزیر تھا جس کے اثرات استاد شاگرد کے رشتے پر بھی مرتب ہوئے۔"
اسٹوڈنٹ ایک کسٹمز بن گیا ہے اور استاد ایک سیلز پرسن
بدلتے ہوئے سماجی حالات میں بہت سے ماہرین تعلیم کے مطابق گریڈز اہم ہو گئے اور سیکھنے سکھانے کا عمل ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں میتھ ڈیپارٹمنٹ کی طالب علم فاطمہ احمد کا کہنا تھا، ”ٹیچر تو وہی اچھا لگتا ہے جو پڑھائے بالکل نہیں اور گریڈ اچھا دے۔ ہمیں بس اچھے گریڈز کے ساتھ ڈگری چاہیے، اسی چیز کی فیس دی ہے، یہی ہمارے والدین چاہتے ہیں اور یہی ہم چاہتے۔"
اس بارے میں ڈاکٹر شاہد صدیقی کہتے ہیں، ”موجودہ دور سخت مقابلے بازی کا دور ہے۔ سیکھنا سکھانا اور اقدار پیچھے چلی گئیں۔ اب ایک ہی ہدف ہے کہ جیسے بھی ہو A گریڈ ملے۔"
وہ کہتے ہیں، ”فیکڑی ماڈل آ گیا جس میں تعلیم محض بزنس ہے اور اقدار کی کچھ پوچھ گچھ نہیں۔ سٹوڈنٹ ایک کسٹمز بن گیا ہے اور استاد ایک سیلز پرسن، جو اوپر مالکان بیٹھے ہیں ان کا مقصد منافع کمانا ہے۔ استاد کی تہذیبی شخصیت قابل فخر اثاثہ رہی ہی نہیں، وہ کرچیوں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔ اب اگر ہم چاہیں بھی کہ وہ دور واپس آئے جب استاد شاموں کو محفلیں سجاتے تھے تو وہ ممکن نہیں۔"
کلاس روم میں سب گنجائش موجود ہے
پنجاب یونیورسٹی میں فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیومینٹیز کی سابق ڈین پروفیسر شائستہ سونو سراج الدین تقریباً چالیس سال سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”اصل چیز استاد کی اپنے مضمون پر مہارت اور اظہار کی قوت ہے۔ اگر یہ دونوں چیزیں ہیں تو کمرہ جماعت کی گنجائش ہی کافی ہے۔"
وہ کہتی ہیں ”غیر رسمی انداز تعلیم کی میں کچھ زیادہ قائل نہیں۔ ویسے بھی موجودہ حالات میں یہ کئی وجوہات کی بنا پر قابل عمل نہیں۔ اب کلاسز میں سینکڑوں طلبہ ہوتے ہیں، آپ کے لیے محض نام یاد رکھنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے جو انسپائریشن ہے وہ متن کے ذریعے ہونی چاہیے۔"
فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فاخرہ نورین اتفاق کرتی ہیں کہ کلاس روم میں بہت گنجائش ہوتی ہے لیکن معاشرے کا موجودہ ماحول کچھ زیادہ سازگار نہیں، ”اساتذہ کا احترام آج بھی کیا جاتا ہے مگر ماضی کی نسبت آج استاد خوفزدہ ہے۔"
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ” ایک طرف ریاستی عمل دخل بہت بڑھا کہ یہ پڑھاؤ یہ نہ پڑھاؤ، یہ موضوعات ہیں جن پر بات نہیں کر سکتے۔ جبکہ دوسری طرف کلاس میں طلبہ کے ردعمل سے بھی خوف آتا ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ کب کوئی کھڑا ہو کر حساس قسم کا الزام نہ لگا دے۔ یہ ماحول نہ تعلیم کے لیے سازگار ہے نہ مضبوط انسانی رشتوں کے لیے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔