صحارا میں نمک کی کھدائی کا صدیوں پرانا کاروبار بچانے کی جدوجہد

نائجیریا کے علاقے بلما میں نمک کی کھدائی کرنے والوں کو بدلتے حالات کی وجہ سے اپنی بقا کے مسئلے کا سامنا ہے۔ اس علاقے کے بچے کچے نمک فروشوں کو سہولت دے کر کاروبار کو بند ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

صحارا میں نمک کی کھدائی کا صدیوں پرانا کاروبار بچانے کی جدوجہد
صحارا میں نمک کی کھدائی کا صدیوں پرانا کاروبار بچانے کی جدوجہد
user

Dw

ایک نخلستان کے کنارے اور ریتلے ٹیلوں میں گھرا یہ ایک ایسا صحرائی منظر ہے، جہاں سے اب بھی کبھی کبھار کوئی کارواں گزرتا ہے۔ شمال مشرقی نائیجر میں بلما کے قریب اس علاقے میں کلالہ کے نمک کے ڈھیر کبھی تاجروں کے اونٹوں کی ڈولتی قطاروں کے لیے ایک ضروری پڑاؤ تھے۔

یہاں نمک کے حصول کے لیے نسل در نسل جاری کھدائی ایک پھلتا پھولتا کاروبار تھا، یہاں سے نکالے گئے نمک کو صحارا اور اس سے آگے کے علاقوں میں خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ تاہم آج کل مسلح گروہوں اور اسمگلروں کی آماجگاہ بنے اس الگ تھلگ صحرائی علاقے میں نمک کی کھدائی کرنے والے اب صرف زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہاں کے باسی صدیوں سے سینکٹروں گڑھے اپنے ہاتھوں سے کھودتے ہیں اور پھر ان میں پانی بھر کر چٹانوں پر لگے نمک کو دھو کر یہاں سے باہر نکالا جاتا رہا۔


یہاں کالے رنگ کے گڑھوں میں کھڑے ابراہیم تگاجی اور ایک ان کے ایک ساتھی لوہے کی چھینی کے ذریعے نمک نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ نمک نکالنے کا ایک ایسا روایتی طریقہ ہے، جس میں وقت گزرنے کے باوجود بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

یہ ایک انتہائی گرم علاقہ ہے۔ یہاں کئی دنوں میں تو میں بھی درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسے میں مزدور ننگے پاؤں انتہائی مشقت کے ساتھ نکالے گئے نمک کو کھجور کے پتوں سے بنے سانچوں میں ڈال کر بڑی بڑی ٹکیوں کی شکل دیتے ہیں اور پھر اسے فروخت کیا جاتا ہے۔


یہ انتہائی محنت طلب کام ہے، جس کا بدلہ اس آمدنی کی شکل میں ملتا ہے، جو اس علاقے سے گزرنے والے خریداروں کے رحم و کرم پر ہے۔ تاگاجی کے مطابق، ''جب کوئی پیسے والا آتا ہے تو آپ بہت کماتے ہیں ورنہ یہ بہت سخت کام ہے اور اس میں پیسہ کم ہے۔‘‘

لیکن مقامی معیشت میں اس کام کےکچھ ہی متبادل ہیں اور بلما کی تقریباً نصف آبادی اب بھی نمک کے ان گڑھوں میں کام کرتی ہے۔ اس صنعت کے ایک تجربہ کار مزدور عمر کوسوکے مطابق جیسے ہی آپ اسکول چھوڑ دیتے ہیں، آپ کو یہاں کام کرنا ہو گا۔ ہر خاندان کا اپنا نمک نکالنے کا علاقہ ہوتا ہے۔ آپ اپنی بیوی، بچوں کے ساتھ ہیں اور آپ آکر کام کرتے ہیں۔‘‘


اونٹوں کے قافلے اب بھی بلما میں رکتے ہیں، جہاں کے رہائشیوں کی اکثریت ان روایتی گھروں میں رہتی ہے، جن کی دیواریں قریبی کانوں سے لائے گئے نمک اور مٹی سے تعمیر کی گئی ہیں۔ ایک فرد جسے ''مائی‘‘کہا جاتا ہے وہ روایتی طور پر یہاں کا کرتا دھرتا ہوتا ہے۔ وہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کون سا علاقہ کھودنا ہے اور کس قیمت پر فروخت کرنا ہے۔

کیاری اباری چیگو کا سرداروں کے خاندان سے تعلق ہے اور اس وقت انہیں مائی کا درجہ حاصل ہے۔ انہوں نے مقامی طور پر تیار کردہ نمک کی خوبیوں کو گنواتے ہوئے کہا کہ غذائی اجزا کی کمی سے بچنے کے لیے سمندری نمک کو آئیوڈائز کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ان کے بقول، ''ہمارا نمک 90 فیصد آئیوڈائزڈ ہے لہذا ہم اسے بیمار ہونے کے خطرے کی پرواہ کیے بغیر براہ راست کھا سکتے ہیں۔‘‘


ان کا کہنا تھا کہ اب یہاں زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ مثال کے طور پر مقامی طوارق قبائل کے تاجروں نے بتدریج اپنا خانہ بدوش طرز زندگی ترک کر کے شمال میں قریبی پہاڑوں کے زرخیز دامنوں میں کھیتی باڑی شروع کر دی۔ چیگو کے مطابق یہاں رہ کر نمک کا کاروبار کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نمک کے حصول کے لیے صحرا کا سفر جتنا خطرناک ہے اتنا ہی کٹھن بھی ہے۔

کوار نخلستان کی سرحدیں چاڈ اور لیبیا سے ملتی ہیں، یہ ملک 2011ء سے خانہ جنگی کی زد میں ہے، اور اسمگلر اور دیگر جرائم پیشہ افراد خطے کی غیر محفوظ سرحدوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نمک کی بوریاں لے جانے والے احمد نامی ایک ڈرائیور نے بتایا، ''ڈاکو ہمارے ٹرکوں کو روکتے ہیں، وہ ہمارے فون اور پیسے لے جاتے ہیں اور پھر ہمیں وہاں سے گزرنے دیتے ہیں۔‘‘


سالٹ ورکر عمر کوسو نےکہا کہ ان کے پاس اچھے گاہک نہیں ہیں۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ اس غریب علاقے کے لوگوں کے لیے ان گاہکوں کی پیشکشوں کو رد کرنا مشکل ہے۔

یورپی یونین نےکئی ٹرک مالکان کو ادائیگیاں کیں تاکہ نمک پیدا کرنے والی میونسپلٹیوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ ممکن بنایا جائے۔ لیکن یہ منصوبہ گرمی، ناہموار سڑکوں اور مقامی کوآپریٹو کے ارکان کے درمیان جھگڑوں کے باعث دم توڑ گیا۔ اباری چیگو کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک 'اچھی طرح‘ تجارت کا خواب دیکھا ہے، جس کے تحت گاڑیاں خریدی جا سکیں اور قیمتوں میں کمی لانے کے لیے پیداوار کو ذخیرہ کرنےکے لیے جگہ مہیا ہو سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔