جہاد کے لیے پاکستان کا سفر کرنے والے ایک امریکی نوجوان کی کہانی

جہاد میں شامل ہونے کے خاطر اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ تقریباً پندرہ برس قبل پاکستان کا سفر کرنے والے ایک امریکی شہری نے دہشت گردی کا الزام گوکہ قبول کرلیا ہے۔

جہاد کے لیے پاکستان کا سفر کرنے والے ایک امریکی نوجوان کی کہانی
جہاد کے لیے پاکستان کا سفر کرنے والے ایک امریکی نوجوان کی کہانی
user

Dw

شمالی ورجینیا سے تعلق رکھنے والے رامی زمزم اور ان کے چار ساتھیوں کو سن 2009 میں پاکستان میں گرفتار کرلیا گیا تھا جس کے بعد انہیں اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں تقریباً پندرہ برس قید میں گزارنے پڑے۔ استغاثہ رامی زمزم کے لیے مزید قید کی سزا کے بجائے صرف ایک دن جیل کی مانگ کریں گے تاہم رہائی کے بعد ان پر 20برس تک نگاہ رکھی جائے گی۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ چونکہ زمزم اور ان کے ساتھی، دہشت گردی کے الزام میں، پاکستان میں اپنی سزائیں کاٹ چکے ہیں اس لیے مزید جیل کی سزا ضروری نہیں سمجھتے۔ البتہ ان پر 20برس تک نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ انہوں نے سن 2009میں جو منصوبے بنائے تھے اس پر ازسرنوعمل درآمد نہ کرسکیں۔


مستغیث جان گبس نے اپنے دلائل میں کہا،" ان لوگوں نے (پاکستان) جانے کے لیے متعدد تیاریاں کیں لیکن کسی کو ذرا بھی شبہ نہیں ہوا۔ ان کے اہل خانہ کو، ان کے دوستوں کو، ان کے ہم مکتب کو اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کو بھی بھنک نہیں لگ سکی۔ "

سز اکا حتمی اعلان یکم اگست سے پہلے نہیں ہوگا، جب جج لیونی برینکیما زمزم اور دیگر شخص احمد منی کے کیس میں اپنا فیصلہ سنائیں گی۔ انہوں نے تاہم عندیہ دیا کہ چونکہ ان لوگوں نے پاکستانی جیل میں اپنی قید کی سزا کاٹ لی ہے لہذا اب مزید جیل کی سزا کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔


جہاد کے لیے پاکستان کا سفر

زمزم اور منی کے کیس میں عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ جب سن 2009میں یہ معاملہ سامنے آیا تو اس نے شمالی ورجینیا کی مسلم کمیونٹی کو حیرت زدہ کر دیا۔ زمزم اس وقت ہاورڈ یونیورسٹی میں ڈینٹل کے طالب علم تھے۔ وہ اپنے دیگر پانچ دوستوں کے ساتھ امریکہ سے پاکستان جانے میں کامیاب ہوگئے۔ جب ان کے گھر والوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے ایف بی آئی سے اس امید میں رجوع کیا کہ امریکی حکام انہیں بحافظت امریکہ واپس لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت تک کافی تاخیر ہوچکی تھی۔

پاکستان پہنچنے پر دسمبر 2009میں ان لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ تقریباً دو ہفتوں تک مختلف شہروں کا سفر اور مساجد میں قیام کرتے اور ایسے افراد کی تلاش کرتے رہے جو انہیں سرحد پار کرا کے افغانستان بھیج سکے، تاکہ وہ امریکی فوج کے خلاف جہاد کرسکیں۔


عدالتی دستاویزات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان پانچوں کو 'سیف اللہ' نامی ایک شخص نے آن لائن رابطے کے ذریعہ پاکستان بلایا تھا۔ سیف اللہ کا اصل نام جوڈ کینان محمد تھا۔ وہ امریکہ کے نارتھ کیرولینا کے رہنے والے تھے اور پاک افغان سرحد پر کسی جگہ مقیم تھے۔ اور بعد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے۔

جہاد کا پیغام

امریکہ سے پاکستان روانہ ہونے سے قبل ان لوگوں نے اپنے گھر والوں کے لیے ایک ویڈیو پیغام چھوڑا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ غیر ملکی حملہ آوروں سے مسلمانوں کی سرزمین کی حفاظت کرنا ان پرفرض ہے۔


اس ویڈیو میں عراق میں امریکی فوجیوں کے ذریعہ عام شہریوں پرکی جانے والی زیادتیوں کو دکھایا گیا ہے۔ زمزم اس ویڈیو میں کہہ رہے ہیں،" جب مسلمانوں کی سرزمینوں پر قبضہ کرلیا جائے، جب مسلم بچوں کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جائے، جب مسلم خواتین کا ریپ کیا جائے، جب ہمارے بھائیوں اور بہنوں پر حملے کیے جائیں اور انہیں قتل کیا جائے تو ہر شخص پرجہاد فرض ہوجاتا ہے۔"

پاکستان نہ آنے کا مشورہ

عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ' سیف اللہ' نے ان پانچوں امریکی نوجوانوں کو پاکستان نہ آنے کے لیے کم از کم دو مرتبہ مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ امریکہ میں رہ کر ہی اپنا کام کریں، کیونکہ "وہ وہاں جہاد کے مقاصد کے لیے زیادہ سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔" تاہم ورجینیا کے یہ پانچوں نوجوان اپنے ارادے پر مصر رہے اور پاکستان پہنچ گئے۔ لیکن سیف اللہ کے ساتھ ملاقات کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔


پاکستان پہنچنے کے بعد دو ہفتے تک وہ مختلف افراد اور عسکریت پسند گروپوں کے کارکنوں سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق ان پانچوں کو 9دسمبر 2009کو سرگودھا میں ایک مکان سے گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری سے کچھ دیر قبل منی اور سیف اللہ کے درمیان ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی۔ زمزم کی عمر اس وقت 22برس تھی۔

پانچ نوجوانوں میں سے دو وقار خان اورعمر فاروق جیل سے رہا ہوچکے ہیں اور پاکستان میں ہیں۔ امریکی حکومت ان کی حوالگی کی کوشش کررہی ہے لیکن فی الحال کامیابی نہیں ملی ہے۔ امان عامر کو قید کے دوران سنگین ذہنی امراض لاحق ہوگئے تھے۔ امریکی جج برینکیما نے کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف کسی طرح کے الزامات کو مسترد کردیں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔