سوشل میڈیا پاکستانی خواتین کے لیے جان لیوا ہو سکتا ہے
پاکستان میں ایک نوعمر لڑکی کے رقص کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے کے بعد اس کا قتل کردیا جانا اس بات کی سنگین علامت ہے کہ پدرسری کلچر کی وجہ سے خواتین کے آگے بڑھنے کی راہ میں کتنی اڑچنیں حائل ہیں۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل یا "آنر کلنگ" میں بالعموم خاندان کا کوئی مرد ہی ملوث ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عورت کے "نازیبا" رویے کی وجہ سے خاندان کی ناک کٹ گئی۔ خواہ اس کا سبب خاندان کے ذریعہ طے کردہ شادی سے انکار، ریپ کا شکار یا انٹرنیٹ کے دور میں سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کیا جانا ہی کیوں نہ رہا ہو۔
جنوری میں پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے ایک گاوں میں ایک نوعمر لڑکی کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب اس کے ایک مرد دوست نے اس کے رقص کی ویڈیو ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کردی۔ وہ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی اور اس نے مذکورہ مرد کی مطالبات کے آگے جھکنے سے انکار کردیا تھا۔ اس سے ناراض ہو کر اس نے لڑکی کی ایک ویڈیو اپ لوڈ کرکے اسے گاؤں کے بعض افراد کو بھیج دیا۔
اس قدامت پسند اسلامی ملک میں یہ پہلا موقع نہیں تھا جب سوشل میڈیا پر رقص کرتی ہوئی لڑکی کا ویڈیو اپ لوڈ کرنے پر اس کو قتل کیا گیا ہو۔ مئی 2012 میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد پانچ خواتین کو قتل کردیا گیا تھا۔ ویڈیو میں ان خواتین کو خیبر پختونخوا کے علاقے کوہستان میں شادی کی ایک تقریب میں گیت گاتے اور رقص کرتے دکھایا گیا تھا۔ کوہستان صوبے کے انتہائی قدامت پسند علاقوں میں سے ایک ہے۔
خواتین اپنی آن لائن حفاظت کیسے کر سکتی ہیں؟
ان دونوں واقعات پرپورے ملک میں شدید ردعمل ہوا لیکن سوشل میڈیا پر خواتین کے تحفظ کے لیے بہت کم کام کیا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی بانی نگہت داد کہتی ہیں کہ بہت سی خواتین اپنے دوستوں اور خاندان والوں کو تصاویر اور ویڈیو سمیت اپنی ذاتی معلومات تک آن لائن رسائی کی اجازت دینے کے بعد مشکلات میں پھنس جاتی ہیں۔
نگہت نے ڈی ڈبلیو بتایا کہ انہیں خواتین کی جانب سے معلومات اور مواد کے بلااجازت استعمال کی شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں۔ ان شکایتوں میں میں بلیک میلنگ، دھمکیاں اور بدنام کرنے جیسے معاملات شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم کے ہاٹ لائن پر جو شکایتیں موصول ہوتی ہیں ان میں ایسے کیسز کی تعداد 72فیصد ہے۔
پاکستانی معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو آن لائن دھمکیوں، بلیک میلنگ اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی سابق قانون ساز بشریٰ گوہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں ان کے سیاسی مخالفین کی طرف سے آن لائن دھمکیاں دی گئیں اور سوشل میڈیا اس جنوب ایشیائی ملک میں خواتین کے لیے ایک زہریلی جگہ بن چکاہے۔ پاکستان کے انتہائی مذہبی قدامت پسند علاقوں میں خواتین کی تصاویر اتارنے یا ان کی تصاویر کو عام کرنے پر ان خواتین کو مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نگہت کہتی ہیں کہ اگر گھر والوں کو یہ گمان ہوجائے کہ اس سے ان کی عزت کو نقصان پہنچا ہے تو یہ خواتین کے لیے جان لیوا خطرہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ بعض خواتین کو ان کے گھر والوں نے صرف ان کے نام اور چہرے انٹرنیٹ پر ڈالنے کی وجہ سے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔
توہین مذہب بھی ایک بڑا خطرہ
توہین مذہب کے الزامات پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک اور خطرہ ہیں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ایسے متعدد کیسز سامنے آئے ہیں جن میں لوگوں پر اسلام کی آن لائن توہین کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ گزشتہ برس ایک پاکستانی عدالت نے ایک مسلم خاتون کو واٹس ایپ پر مبینہ طورپر اہانت آمیز مواد پوسٹ کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی۔
پاکستانی پارلیمان کی رکن کشور زہرہ کا خیال ہے کہ خواتین کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کو غلط ثابت کرنا بہت مشکل ہے اور پاکستان کے توہین رسالت قوانین بھی اس مسئلے کو مزید سنگین بناتے ہیں۔ کشور کہتی ہیں،"اس قانون کو ختم کرنے کے بجائے، جو کہ خواتین کے خلاف بھی استعمال ہو رہا ہے، ہم مزید مذہبی قوانین متعارف کروا رہے ہیں، جس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔"
حکام کس طرح مدد کرسکتے ہیں؟
سابق قانون سازبشریٰ گوہر نے کہا کہ جب انہیں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تو وفاقی تفتیشی ایجنسی (ایف آئی اے)نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے۔ نگہت زہرہ، جن کی پارٹی موجودہ حکومت میں شامل ہے، نے بھی کہا کہ ایف آئی اے موثر طورپر اپنے فرائض انجام نہیں دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام خواتین کے خلاف کام کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا،"میں پارلیمان میں کام کرنے والی خواتین کو جانتی ہوں جنہیں ہراساں کیا جاتا تھا اور بلیک میل کیا جاتا تھا۔ لیکن جب میں نے اس معاملے کو اٹھانے کے لیے مرد اراکین سے بات کو تو انہوں نے انتہائی ہچکچاہٹ دکھائی۔"
زہرہ نے مزید بتایاایف آئی اے بہت سارے غیر ضروری سوالات بھی پوچھتی ہے۔"اگر سوشل میڈیا پر آپ بدنام ہوتی ہیں تو آپ کو سماجی طور پر بھی اچھوت کردیا جاتا ہے۔ اور اگر حکام بھی ملزمان کو پکڑنے کے بجائے متاثرین کو ہی تنگ کرتے ہوں تو خواتین اپنی شکایات درج کرانے کے لیے آگے کیوں کر آئیں گی۔"
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم نگہت داد کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے بہر حال کچھ پیش رفت ضرور کی ہے اور اگر ان کے پاس مزید وسائل دستیاب ہوتے تو شاید بہت کچھ کیا جاسکتا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔