سوشل میڈیا ذہنی صدمے کا باعث بھی بن سکتا ہے
جنگی محاذوں پر پھنسے افراد ہی جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ذہنی صدمے کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ایسے افراد بھی نفیساتی طور پر متاثر ہو سکتے ہیں، جو جنگ کی ویڈیوز دیکھتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا کے دور میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ویڈیو شیئر کرنے کا رحجان بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ جہاں مختلف قسم کی تفریحی و سیاسی مواد سے پُر ویڈیوز شیئر کی جاتی ہیں، وہیں تنازعات کی صورت میں جنگ وجدل کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہتات کے ساتھ دستیاب ہیں۔
تاہم تشدد سے بھری ایسی ویڈیوز انسانی نفسیات کو غیر محسوس طریقے سے متاثر کر سکتی ہیں اور کچھ حساس قسم کے افراد ذہنی صدمے کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام اور یمن کے بعد اب یوکرین جنگ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسی ویڈیوز سے خبردار رہنا چاہیے۔
ڈیجیٹل جنگ کے ذہنی اثرات
بالخصوص یوکرین کی جنگ کو ڈیجیٹل وار بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈٰیا پر جاری کردہ اس جنگ کی کئی ویڈیوز لاکھوں مرتبہ دیکھی جا چکی ہیں۔ تاہم یہ ایک معمہ ہے کہ آیا یہ ویڈیوز حقیقی بھی ہیں؟
یوکرین میں غیرجانبدار میڈیا اداروں کی موجودگی محدود ہے۔ بہت سے مقامات پر صحافیوں کو جانے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اس لیے یوکرین سے حاصل ہونے والی خبریں زیادہ تر وہاں کے رہائشیوں کی طرف سے ہی فراہم کی جا رہی ہیں، ان میں یہ ویڈیوز بھی شامل ہیں۔ یہ ایسی ویڈیوز ہیں، جن کے درست ہونے کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ذہنی صدمے سے بچتے ہوئے اس تنازعے کے حوالے سے باخبر کیسے رہا جائے؟ سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل مواد کی اشاعت قدرے نیا مظہر ہے، اس لیے اس بارے میں زیادہ تحقیق نہیں کی جا سکی ہے۔
ذہنی طور پر تیار رہیں
ڈیجیٹل مواد کے تجریے کے ماہر سام ڈوبرلے کے مطابق سوشل میڈیا صارفین کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے کہ انٹر نیٹ پر کسی بھی وقت ان کے سامنے پریشان کن اور صدمہ پہنچانے والا مواد آ سکتا ہے۔ ان کے بقول ایسی کوئی لرزہ خیز ویڈیو اچانک دیکھنے سے نفیساتی تناؤ زیادہ ہو سکتا ہے۔
سام کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا صارفین کو خود سے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے بلکہ اگر انہیں کوئی پریشان کن تصاویر یا ویڈیوز دیکھنے کو ملیں تو وہ تسلیم کریں کہ انہیں دیکھنے سے وہ ذہنی طور پر متاثر ہوئے ہیں، ''اگر ہم یہ کہیں کہ ایسے مناظر دیکھنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا اور حقیقت سے آنکھیں موند لیں تو اس کے اثرات غیر محسوس طریقے سے ہمارے ذہن کو زیادہ متاثر کریں گے۔‘‘
ہر انسان کی نفسیات مختلف ہوتی ہے، اس لیے وہ مختلف قسم کے پریشان کن مواد پر مختلف طریقے سے ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ کچھ حساس لوگ صرف ذہنی طور پر دھچکے کی کیفیت میں جا سکتے ہیں تو کچھ بدلہ لینے کی غرض سے عملی اقدامات بھی اٹھا سکتے ہیں۔ بعص اوقات غلط معلومات کی وجہ سے انسان اپنے رویوں کو تشدد آمیز سرگرمیوں پر بھی رضا مند کر سکتا ہے۔
صارفین کریں کیا آخر؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر نیوز فیڈ دیکھتے ہوئے، اپنی ڈیوائس کی آواز بند رکھیں کیونکہ اچانک کسی ویڈیو میں بم دھماکے یا میزائل کی آواز کے اثرات ذہن پر فوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے بقول آواز کی طاقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے دور رس نفسیاتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ سے متعلق ویڈیوز دیکھتے ہوئے ویڈیو ونڈو کا سائز چھوٹا کر دینا چاہیے جبکہ آٹو پلے آپشن کو غیر فعال بنا دینا چاہیے۔ ایسی ویڈیو اچانک سامنے آنے کی صورت میں ونڈو بند کر دینا بھی ایک متبادل ہو سکتا ہے۔
ایسے پرتشدد مواد کو بار بار دیکھنے یا ایک ہی نوعیت کی ویڈیوز کو زیادہ دورانیے تک دیکھنے سے بھی انسانی ذہن جزوی طور پر صدمے کی کیفیت میں جا سکتا ہے۔ یہ صدمہ فوری طور پر اپنا اثر نہیں دیکھتا بلکہ آہستہ آہستہ انسانی سوچ اور اعمال کو متاثر کرنا شروع کرتا ہے۔
ایسے افراد جو بضد ہیں کہ انہیں ایسے مواد سے کوئی فرق نہیں پڑتا، انہیں بھی اپنے روزمرہ کی روٹین پر نظر ثانی کرنا چاہیے، مثال کے طور پر سونے کی عادت میں تبدیلی، ڈروانے خوابوں کا آنا، منشیات لینے کی طلب، مزاج میں چرچڑا پن یا چھوٹی چھوٹی باتوں پر اشعال انگیزی وغیرہ وغیرہ۔ ایسی اعمال کو بھی نوٹ کرنا چاہیے، جو پہلے ان کی روٹین کا حصہ نہیں تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کی جنگ کی وجہ سے صدمے اور بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے صرف ایسے لوگ ہی صدمات کا شکار نہیں ہوتے جو ان جنگی حالات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں بلکہ ایسے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں، جو اس طرح کے تنازعات کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کو باخبر رہنا چاہیے لیکن ساتھ ہی انہیں اپنی ذہنی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔