قات کے نشہ آور پتے،اسمگلر جڑی بوٹی بتا کر امریکہ لے جا رہے تھے، جرمنی میں ضبط

باویریا کے کسٹم حکام نے قات کے نشہ آور پتوں کی ایک بڑی کھیپ ضبط کر لی ہے۔ یہ امریکا لے جائی جا رہی تھی۔حکام نے بتایا ہے کہ ایک اعشاریہ دو میٹرک ٹن یہ نشہ آور پتے دبئی سے امریکا کے لیے بک کیے گئے تھے۔

جرمنی میں قات کے  نشہ آور پتوں کی بڑی کھیپ ضبط
جرمنی میں قات کے نشہ آور پتوں کی بڑی کھیپ ضبط
user

Dw

اسمگلروں کا خیال تھا کہ وہ جرمن کسٹم حکام کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ اس غیر قانونی کھیپ کو گھریلو استعمال کی جڑی بوٹیوں کی طرح اسمگل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

میونخ ایئر پورٹ کے حکام نے بتایا ہے کہ ایک اعشاریہ دو میٹرک ٹن یہ نشہ آور پتے دبئی سے امریکا کے لیے بک کیے گئے تھے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ میونخ ایئر پورٹ کے حکام نے اتنی بڑی تعداد میں نشہ آور مواد کو اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنائی ہے۔ اسمگلروں نے قات کے پتوں کے اس کارگو شپمنٹ کو میز کی آرائش کا سامان قرار دیا تھا۔


جرمن کسٹم حکام ملک سے ٹرانزٹ ہونے والے کارگو سامان کی چیکنگ کرتے رہتے ہیں اور صرف ایسے ہی غیرقانونی سامان کو ضبط کرتے ہیں، جو جرمنی سے ہو کر کسی اور ملک لے جایا جا رہا ہے۔

جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ ایئر پورٹ کے کسٹم دفتر کے ترجمان تھوماس مائسٹر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میونخ ایئر پورٹ کی تعمیر کے بعد پہلی مرتبہ قات کے ان غیر قانونی نشہ آور پتوں کی اتنی بڑی کھیپ ضبط کی گئی ہے۔


قات کیا ہے؟

مشرق وسطی اور قرن افریقہ میں بہت سے مقامی لوگ قات کے پودوں کے نشہ آور پتے باقاعدگی سے چباتے ہیں اور اس کا جوس منہ میں ویسے ہی رکھتے ہیں، جیسے پان کا۔ اس کی وجہ سے نشہ ہوتا ہے۔ اس پودے کو عربستان اور قرن افریقہ کا ایک مقامی پھول دار پودا قرار دیا جاتا ہے، جو وہاں کے مخصوص ماحولیاتی حالات میں نمو پاتا ہے۔

سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ان پتوں کے زیادہ استعمال کی وجہ سے انسان ڈپریشن اور التباسات کا شکار ہو سکتا ہے۔ متعدد لوگ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور نفسیاتی طور پر اس پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔


یورپ اور متعدد شمالی امریکا ممالک میں قات کے پتوں کو چبانے پر پابندی ہے یا اسے ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ بالخصوص یمن، ایتھوپیا اور صومالی ثقافتوں میں قات کے پتوں کا استعمال بہت عام ہے۔ امریکا حکام کا کہنا ہے کہ امریکا میں اس کا زیادہ تر استعمال انہی ممالک سے تعلق والے تارکین وطن کے حامل افراد کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔