انڈونیشیا: سوشل میڈیا پر پابندی سے تاجروں کی مدد ہو سکتی ہے؟
انڈونیشیا میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سامان کی فروخت پر پابندی لگانے کا مقصد چھوٹے کاروباریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ تاہم تاجروں نے اس کے ممکنہ اثر پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔
انڈونیشیا کی حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ای کامرس، یعنی سامان کی خرید و فروخت، سے متعلق ایک نیا ضابطہ جاری کیا ہے، جس میں چھوٹے کاروباریوں کو پہنچنے والے نقصان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسے چھوٹے تاجر اپنی بیشتر اشیاء آف لائن فروخت کرتے ہیں۔
ملک کے چھوٹے پیمانے کے خردہ فروش تاجر ایک طویل عرصے سے شکایات کرتے رہے تھے کہ آن لائن فروخت میں اضافے کی وجہ سے ان کی آمدن بہت متاثر ہوئی ہے اور حکومت نے اسی کے مدنظر یہ ضابطہ نافذ کیا ہے۔ انڈونیشیا کے وزیر تجارت ذوالکفلی حسن نے بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ کاروبار سے متعلق ماحولیاتی نظام میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو منصفانہ، صحت مند اور فائدہ مند مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
وزارت تجارت کے جاری کردہ نئے ضابطے کے مطابق سوشل میڈیا کو صرف اشیا اور خدمات کے لیے اشتہاری پلیٹ فارم کے طور پر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے اور براہ راست خرید و فروخت کے لیے نہیں۔ حسن نے کہا، ''سوشل کامرس مصنوعات کی تشہیر کر سکتا ہے، لیکن سوشل میڈیا الگ ہے، آپ سوشل میڈیا اور سوشل کامرس کو ایک ساتھ نہیں کر سکتے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''کوئی بھی حکومت مقامی چھوٹے کاروباریوں کو تحفظ فراہم کرے گی'' اور اس ضابطے کا مقصد ''کاروباری مسابقت میں برابری کا ماحول پیدا'' کرنا ہے۔ پابندی کا اطلاق ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہوتا ہے، جو براہ راست آن لائن اسٹورز کے ساتھ منسلک ہو کر کام کرتے ہیں، جیسے کہ چینی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک۔ انڈونیشیا میں 'ٹک ٹاک شاپ' سب سے بڑی آن لائن منڈیوں میں سے ایک رہی ہے۔
حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی وزارت نے خاص طور پر ٹک ٹاک شاپ کا ذکر نہیں کیا ہے اور یہ اصول اس طرح کے ''تمام پلیٹ فارمز پر لاگو ہوتا ہے۔'' جمعرات کے روز ٹک ٹاک نے اس کے رد عمل میں کہا کہ اسے انڈونیشیا کی حکومت کے فیصلے پر بہت افسوس ہے۔
انڈونیشیا کے تاجروں کی کاروبار کے لیے جدوجہد
دارالحکومت جکارتہ کے تناہ ابانگ مارکیٹ میں ملبوسات فروخت کرنے والی ایک 25 سالہ روایتی تاجر ندا آگی نے کہا کہ انہیں توقع نہیں ہے کہ نئے ضابطے سے کوئی زیادہ اثر پڑے گا، کیونکہ حالیہ برسوں میں فروخت ہی کم رہی ہے۔ وہ تناہ ابانگ میں اپنی دوکان کے ساتھ ہی ای کامرس پلیٹ فارم کے ذریعے آن لائن کپڑے بھی فروخت کرتی ہیں۔ ان کے مطابق دوکان پر ذاتی فروخت میں زیادہ تر کمی کورونا کی وبا کی وجہ سے کم ہوگئی تھی کیونکہ بہت سے لوگ براہ راست بازار میں خریداری کرنے میں آسانی محسوس نہیں کرتے تھے۔
کسی وقت تناہ ابانگ جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل مارکیٹوں میں سے ایک تھی۔ تاہم اب یہ گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ تناہ ابانگ مارکیٹ کے صدر اسرا ئیل عمر کہتے ہیں: ''مارکیٹ کے بہت سے اسٹورز بند پڑے ہیں اور لوگ بھی اپنا سامان براہ راست فروخت کرنا بند کر چکے ہیں۔ اس کا اثر موجودہ اسٹورز پر بھی پڑا ہے، کیونکہ لوگ کسی بھی قسم کی خالی اور پرسکون مارکیٹ میں جانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔''
عمر کے مطابق تناہ ابانگ ضلع اور اس کے آس پاس تقریباً 20,000 اسٹورز ہیں اور اب اس میں سے تقریباً 20 فیصد خالی پڑے ہیں۔ عمر نے کہا کہ زیادہ تر تاجر مارچ سن 2020 میں وبائی بیماری کے آغاز سے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وبائی مرض کے بعد سے لوگوں میں قوت خرید کم ہوئی ہے، اس لیے ہماری فروخت بھی کم ہے۔
چھوٹے کاروباریوں کا رد عمل کیا ہے؟
انڈونیشین شاپنگ سینٹر ریٹیلرز اینڈ ٹیننٹس ایسوسی ایشن (ہپپنڈو) سے تعلق رکھنے والے ہیڈی دجا ریا کا کہنا ہے کہ ان کی ایسوسی ایشن حکومت کے فیصلے کی بھر پور حمایت کرتی ہے۔ دجاریا نے کہا کہ مارکیٹ پر منحصر تاجروں کے لیے آن لائن خوردہ فروشوں کے ساتھ مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آن لائن شاپنگ، ''خریداروں کے لیے آسان اور زیادہ سستی پڑتی ہے۔'' تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ انڈونیشیائی صارفین ''تجربہ حاصل کرنے کے لیے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز میں بھی جانا چاہیں گے۔
دجاریا کا خیال ہے کہ اگر آن لائن دکانیں بھی قانونی اجازت نامہ حاصل کریں اور آف لائن دکانوں کی طرح کی وہ بھی ضروریات کو پورا کریں، تو انڈونیشیا میں آن لائن اور آف لائن مارکیٹیں ایک صحت مند کاروباری ماحول میں ایک ساتھ رہ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں امید ہے کہ آن لائن دکانیں بازار کی قیمت سے کم پر اشیاء کو فروخت نہیں کریں گی۔ یقیناً آف لائن اسٹورز پر اس کا اثر پڑے گا۔''
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔