جرمنی میں چھوٹے فیملی فارموں کی کمر توڑتی افراط زر
یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیریقینی صورت حال اور عالمی سطح پر افراط زر میں اضافے سے جرمنی کی چھوٹی صنعتیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
یوکرین پر روسی حملے سے قبل جرمن حکومت جانوروں کی فارمنگ جیسی چھوٹی صنعتوں کو مزید پائیدار بنانا چاہتی تھی مگر موجودہ صورتِ حال کے باعث بہت سے نامیاتی فری رینج فارمز کا وجود خطرے سے دو چار ہے۔
اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے نمائندے سے بات چیت کے دوران، ایک مقامی فارمر، تھامس بولِگ نے بتایا، ''بغیر کسی حکومتی تدبیر کے صرف معاشی طور پر اس مسئلے سے نمٹنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ بولِگ کا ماننا ہے، ''ہم عالمی موسمیاتی تبدیلوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تو تیار تھے، مگر اس بحران کے لیے نہیں۔‘‘
انتالیس سالہ بولِگ مغربی جرمن شہر بون کے جنوب میں موجود وٹفیلڈر ہوف نامی ایک درمیانے سائز کے خاندانی فارم کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''ان کی زمین کم از کم سولہویں صدی سے زرعی زمین ہے اور شاید یہاں اس وقت سے کھیتی باڑی کی جا رہی ہے جب سے دنیا کا یہ حصہ زراعت سے متعارف ہوا ہے۔‘‘
اس زمین پر جدید فارم کی بنیاد ان کے والد نے 1982 میں رکھی تھی اور 2019 میں جب بولِگ نے اپنے خاندانی فارم کا چارج سنبھالا تو انہوں نے فارم کو آرگینک اور فری رینج کرنے کا فیصلہ کیا۔ بولِگ نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد اس تبدیلی پر زیادہ پرجوش نہیں تھے، لیکن آخرکار انہوں نے اس کو اپنا لیا اور اب وہ وقتاً فوقتاً بولِگ کا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔ جبکہ جانوروں کی فارمنگ کا یہ کام زیادہ تر بولِگ خود اپنے دو کل وقتی ملازمین کے ساتھ کرتے ہیضں اور فارم سٹینڈ چلانے کا کام ان کی بیوی کے سپرد ہے۔
بولِگ کے مطابق، ''فارمنگ کا نامیاتی فارمنگ میں تبدیل ہونا ایک بہت بڑا اقدام تھا، جس کے لیے قانون کے مطابق بڑے اسٹالز بنانے، چکن کی بالکل مختلف نسل رکھنے اور زیادہ مہنگی خوراک فراہم کرنے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ جانوروں کی کل تعداد میں بہت زیادہ کمی کرنا بھی لازم ہوتا ہے۔‘‘
مزید برآں بولِگ کا کہنا ہے کہ یوکرینی جنگ کی وجہ سے آئے دن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب انہیں اپنے آدھے تعمیر شدہ سٹالوں کو کھنڈرات بنتے دیکھنے کا ڈر ہے۔ کیونکہ جرمنی کے وفاقی شماریاتی دفتر کے مطابق، تعمیراتی سامان کی لاگت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اوسطاً 16.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
بڑی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی
صورتحال کی سنگینی کے بارے میں عوامی نشریاتی ادارے، این ڈی آر سے گفتگو کے دوران، ڈی وی بی کے صدر یوآخم روکوید نے بتایا، ''تعمیراتی سامان کی لاگت میں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ ساتھ، کھاد کی لاگت چار گنا بڑھ گئی ہے جبکہ فیڈ کی قیمت میں دو گنا اضافہ ہوا ہے اور ڈیزل کی خریداری تو اب عام آدمی کی استعطاعت ہی سے باہر ہے۔
مزید برآں، فارمی جانوروں کے لیے جگہ اور تازہ ہوا کی رسائی کے لیے قانونی تقاضوں میں کئی گنا اضافہ ہونا طے ہے۔ جرمن کسانوں کی ایسوسی ایشن، ڈی بی وی کا ماننا ہے کہ گوداموں اور جانوروں کے اسٹالوں کی کنورٹنگ سے 80 فیصد زیادہ آپریشنل اخراجات ہوں گے، بشمول جانوروں کی دیکھ بھال اور خوراک کے۔
موجودہ جرمن حکومت کی بہت سی بلند نظر ماحولیاتی پالیسیوں کی طرح، جیسے کہ "ایگزیٹِنگ کول بائے 2030" (2030 تک کوئلے سے چھٹکارہ) ، زراعت کے نئے قوانین جو پایئدار فارمنگ کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ ترجیحات کی اولین فہرست سے گر گئے ہیں۔
ڈی بی وی کے صدر رُکوید، جو کاشتکاری سے متعلق یورپی یونین کے کمیشن آرگینک ایکشن پلان کو بھی ''یورپ میں غذائی تحفظ کو خطرے میں ڈالنے‘‘ کے طور پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے، ان کا کہنا ہے، ''جانوروں کی نگہداشت کے معاملے میں چیزیں رک گئی ہیں‘‘۔
اس منصوبے میں کیڑے مار ادویات کے استعمال کو ڈرامائی طور پر کم کرنا، اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یورپی یونین کی کی کم از کم 25 % زمین نامیاتی کاشتکاری اور فارمنگ کے لیے مختص کی جائے، اور جی ایم اوز پر پابندی لگا دی جائے۔
رُکویڈ نے جرمن وزیر زراعت، ثیم اُزدمیر کے لیے بھی ایسے ہی سخت الفاظ کہے، جنہوں نے اس سال کے آغاز میں گوشت کی مصنوعات کے لیے ان کے ماحولیاتی اثرات اور جانوروں کی فلاح و بہبود کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک نئے لیبلنگ سسٹم کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔
روکویڈ نے دی سائیٹ اخبار کو بتایا کہ سننے میں آیا ہے کہ کسانوں کو پائیدار فارمنگ کے ضوابط کو پورا کرنے کے لیے درکار تبدیلیوں کو لاگو کرنے میں مدد کی غرض سے ایک بلین یورو (1.05 بلین ڈالر) مختص کیا گیا ہے جوکہ ہر طرح سے ناکافی ہے۔
ساٹھ تا اسی فیصد لاگت
ایسے میں چانسلر اولاف شولس کی اتحادی حکومت صارفین کے بینک کھاتوں کو پہنچنے والے نقصان کو کنٹرول کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کیونکہ اس اکتوبر میںافراط زر کی شرح 10.4 فیصدتک پہنچ گئی ہے۔ اور اگر بات کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کی ہو تو اس کے اعداد مزید بڑے یعنی کہ 21 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ڈی بی وی کے صدر رُکوید کے مطابق، بولِگ جیسے کسان جو سُوروں کی فارمنگ کرتے ہیں، وہ ان بڑھتے ہوئے اخراجات سے خاص طور پر سخت متاثر ہوئے ہیں۔
بولِگ کا کہنا ہے، ''سازوسامان، دیکھ بھال اور سپلائی کے اخراجات میں اضافے کے علاوہ (جو کچھ معاملات میں پچھلے سال کے مقابلے میں 60-80% زیادہ ہیں،) گاہک دو گنا زیادہ خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں سپر مارکیٹ شیلفز میں نامیاتی خوراک جوں کی توں پڑی ہے۔‘‘
بولِگ کے بیان کی تائید ان مقالات سے ہوتی ہے جو بتاتے ہیں کہ جرمنوں نے 2022 میں اپنا بجٹ سخت کرنے کا پہلا طریقہ جو اپنایا ہے وہ سستا کھانا خریدنا اور کم قیمت والی سپر مارکیٹوں سے خریداری کرنا ہے۔ اور مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق بہت سی ریٹیل چینز حکومت کی طرف سے مقرر کردہ جانوروں کی بہبود کے اضافی اخراجات اٹھانے سے انکار کر رہی ہیں اور کسانوں سے کہہ رہی ہیں کہ وہ کم قیمتیں پیش کریں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔