دکھاوا، پیسہ بنانے کی دوڑ یا مذہبی عقیدت
تمام مکتبہ فکر کے علماء متفق ہیں کہ اسلام میں نمود و نمائش کی ممانعت ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر طبقے میں مذہبی رسومات و تہواروں کے موقع پر شان و شوکت کی نمائش کی کوئی کمی نہیں۔
بات یوں شروع ہوتی ہے کہ کچھ دن پہلے ایک جاننے والے تقریبا دہائی دینے والے انداز میں بتاتے ہیں کہ اس مرتبہ قربانی مشکل ہو رہی ہے وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک کلائنٹ نے پیسے دینے کا وعدہ کیا اور مقررہ تاریخ پر جب موصوف وہاں پہنچے تو حاجی صاحب الحاج بننے کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔
یہ قصہ کسی ایک شخص یا فرد واحد پر ختم نہیں ہوتا بلکہ ہمارا عمومی بیمار رویہ اور کسی نی کسی طرح سے ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی روش نے ہمیں ذہنی طور پر بیمار اور لاچار کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس حد تک مفلوج ہو چکی ہے کہ مقابلہ پرستی اور دوسروں کو پیچھے چھوڑ دینے کا بخار کچھ یوں ہماری رگوں میں سرائیت کر چکا ہے کہ الامان الحفیظ۔
کسی کتاب کی حدیث کسی دلیل کی رو سے کوئی یہ بتائے کہ قربانی، حج یا کوئی بھی ایسا رکن ادھار کے پیسوں سے کیے جا سکتے ہیں؟ کیا خود کو مشکل میں ڈال کر ظاہری نمود و نمائش اتنی اہم بن گئی ہے کہ ہم ان تمام ارکان سے جڑے جذبات اور فرائض فراموش کر چکے ہیں؟ دین واضح حکم دیتا ہے، ''تم میں سے جو لوگ صاحب حیثیت ہیں ان پر حج فرض کر دیا گیا ہے‘‘اور قربانی اسی کی ایک کڑی ہے تو اگر حج صاحب حیثیت پر فرض ہوا تو قربانی ہر کسی پر کیونکر لازم ہوئی؟
خیر بات جب اس پر آ ہی گئی ہے تو قربانی کے بعد جس طرح لوگ آلائشیں جگہ جگہ پھینک دیتے ہیں، کیا انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ پیدا ہونے والا تعفن اردگرد رہنے والوں کی زندگی اجیرن کر دے گا؟ اور اس گند کو صاف کرنا بھی ایک طرح سے فرض ہے۔ "صفائی نصف ایمان ہے " کیوں ایسے بھلا دیا گیا؟
ہمارا مسئلہ ہی محض میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کے گرد گھومتا ہے۔ جہاں دو پیسے بنانے کی بات آئے جہاں چندہ اور کھالیں اکٹھا کرنے کی بات آتی ہے وہاں ہمارے تمام لوگ بشمول موقع پرست سیاستدان اور نام نہاد مذہبی جماعتوں کے ڈھکوسلے باز لیڈران طوطے کی طرح آنکھیں بند کر لینا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔
ایک ایسا ملک جو ڈیفالٹ ہونے سے محض چند قدم کی دوری پر ہو وہاں ایک رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں 450 بلین روپے، 2022ء میں 350 سے 400 بلین روپے اور اس سال عوام کی قوت خرید میں واضح کمی کے باوجود کم و بیش 250 سے 300 بلین کی کثیر رقم قربانی کی مد میں خرچ کی گئی ہے۔ ( یہ سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں)
بھئی آپ قربانی کریں ضرور کریں لیکن خدارا اس کے ساتھ اپنی انا، اپنی میں، حسد اور بے حسی کو بھی قربان کریں، آپ حج جیسا فریضہ ضرور ادا کریں لیکن نام نہاد شوشا کے لیے قرض لے کر نہیں، کسی کا حق کھا کر نہیں، کسی کو چھوٹا ثابت کرنے کے لیے نہیں۔ آخری مہینہ گزرتے ہی پہلا مہینہ شروع ہوتا ہے۔ آخری میں انا قربان ہوئی اور پہلے میں جان کی قربانی دے کر اس دین کو بچایا گیا لیکن ہمارے وہی چال چلن، وہی عامیانہ رویے اس مہینے میں تو مزید کھل کر آتے ہیں، ہمیں کہاں معلوم تھا کہ ایسا کچھ بھی ہوتا ہے۔
پر جناب اب باقاعدہ محرم کلیکشن آرہی ہیں مارکیٹ میں، وہ کپڑوں سے شروع ہوتی ہوئی مجالس اور ذاکرین تک جاتی ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک جاننے والی بہت قریبی خاتون سے بات ہوئی اور کیا ہوئی "فرماتی ہیں کیا کریں کرنا پڑتا ہے، آٹھ دس نئے جوڑے تو چاہیے ہی ہوتے ہیں، ناک تھوڑی کٹانی ہے۔‘‘ مزید استفسار پر بتانے لگیں کہ دو سے تین مہینے پہلے باقاعدہ ذاکرین کی بکنگز ہوتی ہیں، جس نے جتنا مہنگا ذاکر بلایا اس کی اتنی واہ واہ۔
ویسے ان کو افسوس تھا کہ ان کی مجالس پڑھنے کے لیے کسی نے ابھی تک حامی نہیں بھری۔ اس سب گفتگو کے دوران نجانے کیوں وہ بچپن کا محرم یاد آیا، جب سبیلیں لگتی تھیں، جب حلیم کی دیگیں پکتی تھیں، جب ہر گھر میں مولانا طالب جوہری اور ضیاء صاحب کی آواز گونجتی تھی۔ جب ہر آنکھ واقعی غمزدہ اور غمگین ہوتی تھی، جب مجالس سے پہلے نیوڈ میک اپ کا رواج نہیں تھا، جب دین بکتے ہوئے نہیں دکھتا تھا۔
ایک اور تخمینے اور ڈیلی پاکستان کے کیے گئے ایک سروے کے مطابق محرم کے ماتم، مجالس اور جلوسوں میں سالانہ تقریبا تین سو پچاس سے پانچ سو بلین روپے کے درمیان خرچ ہوتے ہیں، جس میں خالی ایک دن کی خواتین کی مجلس میں ذاکرین کا خرچہ محض دو سے چار لاکھ کے درمیان ہے۔ باقی آپ خود اندازہ لگائیے کہ کھانا پینا، سکیورٹی، لنگر اور باقی تمام لوازمات کے ساتھ یہ ہندسہ کہاں پہنچتا ہے اور یہ اعداد و شمار ہمارے اپنے ڈوبتے ہوئے ہچکولے کھاتے ملک کے ہیں اور یاد رہے ہر سال یہ ہندسہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
سوال محض اتنا سا ہے کہ کیا مذہب کی نمائش ضروری ہے، کیا دکھاوا ہمیں اندھا، گونگا، بہرہ کرنے کی بعد اپاہج بھی کر دے تب بھی خیر ہے؟ کیا کتاب کا ماننا کتاب پر عمل کرنے سے زیادہ بہتر ہے؟ کیا ہم بے حسی اور ظاہری نام نمود کے چکر میں تمام تعلیمات بھلا بیٹھتے ہیں؟ کیوں ہم مذہبی فرائض کو مشکل سے مشکل ترین بنانے پر تلے ہیں، کیوں حج، محرم اور قربانی جیسے فرائض محض سٹیٹس سمبل کی ضمانت بن گئے ہیں؟ کیوں ہم اپنے ہاتھوں اپنی معیشت کا گلا گھونٹ رہے ہیں؟
کیوں، کب اور کیسے جیسے سوالوں کی ایک طویل قطار ہے اور جواب صرف اتنا ہے کہ جو قوم اپنے پر خود رحم نہیں کرتی اس پر کوئی رحم نہیں کرتا۔ ہم اگر قربانی کا سبق واقعتاﹰ سمجھ لیں تو شاید کچھ بہتری کے آثار نظر آئیں ورنہ صدیوں سے رائج سرمایہ دارانہ نظام ہمارے دیمک زدہ ذہنوں اور جسموں کو نگلنے میں نہ تاخیر کرے گا اور ناں ہی رکے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔