دفاتر میں سینیئرز کی طرف سے جونیئرز کی حوصلہ شکنی کا رجحان

اکثر اداروں میں سینیئر افراد نئے کولیگز کی محنت کو اپنے لیے مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں انتظامیہ ان سے بھی زیادہ مستعدی سے کام کرنے کی امید رکھنا شروع کر دے گی۔

دفاتر میں سینیئرز کی طرف سے جونیئرز کی حوصلہ شکنی کا رجحان
دفاتر میں سینیئرز کی طرف سے جونیئرز کی حوصلہ شکنی کا رجحان
user

Dw

اپنے کیریئر کے آغاز میں ہر نئے آنے والے کی طرح ہم بھی بہت پرجوش تھے اور اپنے فرائض انتہائی جانفشانی سے سرانجام دیتے۔ یہ سب کرتے ہوئے ہم اپنے تئیں اس زعم میں تھے کہ ہم سے سینیئر لوگ ہماری میری محنت کو یقیناً سراہیں گے۔ لیکن جناب ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک ساتھی نے کھانے کے وقفے کے دوران پہلے تو ہم سے انتہائی پرخلوص تعلق بن جانے کا اظہار کیا۔ پھر ایک مخلصانہ مشورے سے نوازا، ''دیکھو خود کو زیادہ نا کھپاؤ۔میں دیکھ رہی ہوں تم مسلسل کام میں جٹی رہتی ہو۔ اس طرح تو ہمیشہ تم سے یہ ہی توقع کی جائے گی۔ اور مزید ذمہ داریاں ڈال دی جائیں گی۔‘‘

ہم نے حیرت سے پوچھا، ''آپ کا مطلب ہے اپنے فرائض ایمانداری سے انجام نا دوں؟‘‘ کہنے لگیں کہ دیکھو کچھ عقل سے کام لو۔ کبھی کوئی کام ادھورا بھی چھوڑ دیا کرو یا کبھی کوئی غلطی جان بوجھ کر بھی کر دیا کرو تاکہ اگلی بار تمہیں مزید کوئی ذمہ داری دینے کا نا سوچا جائے۔ ہم صرف سر ہلا کر رہ گئے۔ اگلی بار ایک اور زرا شوخ سی ساتھی نے ہمیں گھیر لیا اور کہا کہ سنو لڑکی! تم ہمارے لیے مسئلہ بنا رہی ہو۔ لگتا ہے تمہیں تو کام کرنے کا شوق ہے۔ مگر ہم سے بھی یہی امید رکھی جائے گی کہ سب تمھاری طرح کام میں جتے رہیں۔ ہم کام کر کر کے اپنی جان گھلا دیں کیا؟


سچ پوچھیں ہم میں سے اکثریت اسی فارمولے پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرنا اپنی چالاکی گردانی جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم ڈنڈے کے زور پر چلنے والی قوم بن چکے ہیں۔ مارے باندھے اپنے فرائض تو انجام دے دیے جاتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی کجی ضرور چھوڑ دی جاتی ہے۔ دل سے اور شوق سے کیے جانے والے کام میں کارکردگی کا معیار الگ ہی نظر آتا ہے۔ جو کہ اب ہمیں خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہی روش آپ کو آفس اور کارپوریٹ کلچر کے باہر بھی دیکھنے کو ملے گی۔ چاہے کوئی ہنر مند ہو مستری ہو یا کوئی مزدور، اپنے کام کو توجہ اور شوق سے کرنے کے بجائے صرف نبٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

بھلا اگر ایلون مسک ایک راکٹ بنائے اور سوچے کہ اگر اچھا بنا دیا تو اگلی بار لوگوں کو توقع مزید بڑھ جائے گی۔ یا پھر جلد از جلد کام نبٹانے کی غرض سے اس میں کوئی کجی چھوڑ دے تو کیا وہ کبھی ایسی انقلابی ایجادات کر پائے گا؟ جب ہم یہ گلہ کرتے ہیں کہ پاکستانیوں کو دنیا میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا یا ہم ترقی کی دوڑ میں اتنا پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟ تو جناب اس کے قصور وار عمران خان یا نواز شریف سے زیادہ ہم خود ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستانیوں کے ٹیلنٹ کی قدر ان کے اپنے ملک میں نہیں لیکن باہر کے ممالک میں ان کی صلاحیتوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ تو جناب وجہ صرف یہ ہے کہ گورا آپ کے اندر صلاحیت کو نہ صرف پہچان لیتا ہے بلکہ اس صلاحیت کا مثبت استعمال بھی جانتا ہے۔


ایسے معاشرے جہاں لوگ فرسٹریشن کا شکار ہوں، لاقانونیت مہنگائی اور اقرباء پروری نے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہو تو ہر طرف ناامیدی ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ اور پھر ہر کوئی صرف شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتا ہے، جہاں اپنے مسائل کا حل پتھروں اور بابوں سے کروانے کی چاہ ہو اور روشن مستقبل کسی تعویز میں چھپا ہو تو پھر محنت طلب کام سے جان بچائی جاتی ہے۔ ہر جگہ صرف بھیڑ چال ہی نظر آتی ہے۔ ایک شخص اگر سوشل میڈیا سے کما رہا ہے تو دوسرا بھی بغیر سوچے سمجھے اسی کام میں کود پڑتا ہے کہ شاید یہ پیسہ کمانےکا آسان ترین ذریعہ ہے۔ اس کے برعکس وہ اپنی ان صلاحیتوں کو نکھارنے کی ہرگز کوشش نہیں کرتا جو اسے قدرت نے ودیعت کی ہوتی ہیں۔ جس جگہ سے اس کا روزگار پہلے سے وابستہ ہوتا ہے، وہاں وہ محنت کرنے سے بھاگتا ہے۔ اپنے باس سے ہمیشہ نفرت اور ساتھ کام کرنے والوں سے حسد کرنے میں ہی ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ ذرا سوچیں تو کہ ایسی عادات و اطوار کے ساتھ کوئی قوم کس طرح سے ترقی کر سکتی ہے؟

فطری بات ہے کہ جب کوئی کام انسان دل سے اور خوشی سے کرتا ہے تو اسے ذہنی طور پر ایک آسودگی میسر ہوتی ہے۔ بہترین انداز سے کسی کام کو پایا تکمیل تک پہنچا کر کامیابی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بے دلی سے اور بوجھ سمجھ کر کیا جانے والا کام دماغ پر کسی بوجھ کی طرح ہی مسلط رہتا ہے۔ ہم اسے محسوس کریں یا نہ کریں لیکن یہ طرز عمل مکمل طور پر غیر فطری ہے۔ آپ کے ہاتھ سے سرانجام دیا گیا کوئی کام خراب ہو، آپ کی بنائی ہوئی کسی چیز میں کوئی نقص ہو یا اس کا معیار خراب ہو اور آپ کو اس سے کوئی فرق نا پڑتا ہو یہ ممکن نہیں۔ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ نقصان دہ جھوٹ وہ ہوتا ہے جو آپ خود سے بولتے ہو۔ کیونکہ اس کے بعد صحیح اور غلط کی پہچان مٹ جاتی ہے۔ اس لیے آپ لاکھ خود سے جھوٹ بول کر دل کو تسلی دیں کہ ہم اچھا کام نا کر کے خود کو محنت سے بچا لیتے ہیں۔ اس سے نا حقیقت بدلے گی اور نہ ہی آپ کا مستقبل روشن ہو گا۔ لیکن ہاں! آپ کو بلکہ آپ کی آنے والی نسلوں کو بھی اس کی قیمت ضرور ادا کرنی پڑے گی۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔