اتر پردیش میں 'لب پہ آتی ہے دعا' پڑھنے پر اسکول کے پرنسپل کو معطل کر دیا گیا

سخت گیر ہندوؤں نے صبح اسکول کی اسمبلی میں علامہ اقبال کی مقبول نظم "بچے کی دعا" پڑھوانے پر اسکول پرنسپل کے خلاف نظم کے ایک مصرعے 'میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو' پر اعتراض ہے۔

بھارت میں 'لب پہ آتی ہے دعا' پڑھنے پر اسکول کے پرنسپل کو معطل کر دیا گیا
بھارت میں 'لب پہ آتی ہے دعا' پڑھنے پر اسکول کے پرنسپل کو معطل کر دیا گیا
user

Dw

بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع بریلی میں ایک سرکاری اسکول کے پرنسپل کو محکمہ تعلیم نے اس لیے معطل کر دیا کیونکہ وہ صبح کی اسمبلی میں اردو زبان کی ایک مقبول و معروف دعائیہ نظم 'لب پہ آتی ہے دعا، بن کے تمنا میری' بھی بچوں سے پڑھوایا کرتے تھے۔

اطلاعات کے مطابق سخت گیر ہندوگروپ بچوں کے لیے علامہ اقبال کی اس دعائیہ نظم کے پڑھنے پر خوش نہیں تھے، اسی لیے پولیس سے شکایت کی گئی تھی۔ انہیں خاص طور پر 'میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو، نیک جو راہ ہو، اس رہ پہ چلانا مجھ کو' پر اعتراض تھا۔


اسکول میں یہ نظم پڑھتے ہوئے بچوں کے ایک ویڈیو کلپ کو پہلے وائرل کیا گیا، جس میں انہیں 'میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو، نیک جو راہ ہو، اس رہ پہ چلانا مجھ کو' گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کلپ کے وائرل ہونے کے بعد کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں پولیس نے ایک مقدمہ درج کر لیا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

یوگی حکومت کا موقف

ریاست اتر پردیش میں سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے اور وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت کو، اقلیتی مسلم سماج کے تئیں سخت موقف کے لیے، تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔


پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں مقدمہ اس لیے درج کیا، کیونکہ سرکاری اسکولوں میں روزانہ پریئرز کے لیے جو اس طرح کی دعائیہ نظمیں شامل ہیں، اس فہرست میں یہ نہیں ہے، اور اس نظم کا تعلق ایک خاص ''مذہب سے ہے۔''

علاقے کے ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا تھا، ''پریئر منظور شدہ فہرست کا حصہ نہیں تھی اور ایک کمیونٹی سے متعلق تھی۔'' یو پی کے محکمہ تعلیم کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات کی بنیاد پر پرنسپل کو معطل کیا گیا ہے اور اس معاملے کی انکوائری کی جائے گی۔


اردو شاعر علامہ اقبال نے یہ دعائیہ نظم سن 1902 میں لکھی تھی، جو بھارت میں بھی کافی مقبول ہے اور ریڈیو پر بھی نشر کی جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے ہی معروف ترانہ ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا'' بھی لکھا تھا، جو بھارتی پارلیمان میں بھی پڑھاجاتا ہے اور بھارتی فوج اس کی دھن بھی استعمال کرتی ہے۔

اقبال نے جب"بچے کی دعا" لکھی تھی تو شاید ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں ہو گی کہ اس نظم کے پڑھانے پر کسی شخص کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔


ہندو قوم پرستوں کا اعتراض

سن 2019 میں اسی ریاست کے ضلع پیلی بھیت میں بھی ایک ہیڈ ماسٹر کو اس وقت معطل کر دیا گیا جب اسکول کے طلبہ کو یہی نظم پڑھتے ہوئے سنا گیا تھا۔ اس وقت انتہا پسند خیالات کی حامل ہندو تنظیم 'وشو ہندو پریشد' کی مقامی یونٹ کی شکایت کے بعد یہ کارروائی کی گئی تھی۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد اقبال کی نظم 'بچے کی دعا' بھارت میں کافی مقبول ہے۔ بیشتر اسکولوں اور بالخصوص مسلم اکثریتی اسکولوں میں کلاس شروع ہونے سے قبل یہ دعا پڑھی جاتی ہے۔ حتی کہ جن اسکولوں میں اردو پڑھنے والے بچے نہیں ہیں، وہاں بھی یہ دعا سنائی جاتی ہے۔


تاہم ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمانوں اور اردو سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کو نشانہ بنانے اور ہندوتوا اور ہندو دھرم کی علامات کو غالب کرنے کی براہ راست یا بالواسطہ کوششیں تیز ہوتی گئی ہیں۔ یہ تازہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

دسمبر سن 2020 میں انجینئرنگ کالج آئی آئی ٹی کانپور میں جب طلبہ نے فیض احمد فیض کی نظم 'لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے' پڑھی تھی، تو اس وقت بھی اس پر یہ کہہ کر پابندی عائد کر دی گئی تھی کہ یہ نظم ہندو مخالف ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔