جرمنی میں نسل پرستانہ توہین کے بعد طلبہ نے کیمپ ترک کر دیا
پولیس کا کہنا ہے کہ طلبہ کے ایک گروہ نے ایک دوسرے گروپ کی نسل پرستانہ توہین کی اور انہیں دھمکیوں کا نشانہ بنایا، تو متاثرہ بچے ریاضی کے کیمپ سے رخصت ہو گئے۔
جرمن پولیس نے آٹھ مئی پیر کے روز بتایا کہ مشرقی ریاست برانڈن برگ میں اسکول کے بچوں کے ایک گروپ کو عمومی دھمکی کے ساتھ ہی نسل پرستی کی بنیاد پر بھی دھمکی دی گئی، جس کے بعد طلبہ ریاضی سے متعلق یہ کیمپ چھوڑ کر کے وہاں سے چلے گئے۔
جن طلبہ کو نشانہ بنایا گیا، ان میں سے بیشتر کا تعلق نسلی اقلیت سے ہے۔ پولیس نے بتایا کہ یہ طلبہ علاقے میں کسی کی اٹھارہویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے، جہاں طلبہ کے ایک دوسرے گروپ نے ان کے خلاف نسل پرستانہ باتیں کیں، جس کے بعد ان کے استاد انہیں لے کر وہاں سے روانہ ہو گئے۔
اس واقعے کے بعد پولیس افسر برلن کے جنوب مشرق میں واقع فراؤان زے کیمپ سے بچوں کو باہر لے گئے۔ پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اس واقعے کی تحقیقات ایک ایسا علاقائی پولیس یونٹ کر رہا ہے، جو سیاسی محرکات پر مبنی جرائم پر نگاہ رکھنے کا کام کرتا ہے۔
ایک معروف جرمن روزنامے نے یہ اطلاع دی ہے کہ پولیس نے اس واقعے کے سلسلے میں 28 افراد کے نام لیے ہیں، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ جن کے نام لیے گئے ہیں، آیا وہ سب کے سب مشتبہ افراد ہیں۔ اس کیمپ کی سربراہ نورا رن اَیک نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ''ہم کسی بھی قسم کی تفریق اور نسل پرستی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔‘‘
حکام کا رد عمل کیا رہا؟
برلن کی وزیر تعلیم کاترینا گیونٹر ویُونش نے کہا کہ اسکول کے بچوں کے لیے ایک ماہر نفسیات کی مدد کی پیشکش کی جائے گی، تاکہ وہ اس واقعے سے اچھی طرح نمٹ سکیں۔ انہوں نے کہا، ''میں ایسے حملوں کو برداشت نہیں کروں گی، اور ہمیں ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔‘‘
برانڈن برگ کی ریاستی پارلیمنٹ میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ لڈوِگ شیٹس نے کہا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 'نوجوانوں کو تربیت دینے‘ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم دائیں بازو کی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘‘
برانڈن برگ کے اساتذہ نے گزشتہ ماہ ایک کھلا خط لکھا تھا، جس میں بچوں کی طرف سے نازی سیلوٹ سمیت اسکولوں میں نسل پرستانہ رویے کی مذمت کی گئی تھی۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی نے برانڈن برگ میں اپنی مقبولیت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس جرمن صوبے میں اگلے برس ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔