مقدس سرزمين پر قديم ہندو روايت

سعودی ولی عہد کی جانب سے اعتدال پسند اسلام کو فروغ دينے کی پاليسی کے تحت پچھلے سال ملک ميں يوگا کی اجازت ملی۔ ورزش کے اس طريقہ کار نے سعودی عورتوں کی زندگيوں ميں مثبت تبديلياں متعارف کرائيں۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

عورتوں کا ٹانگيں پھيلا کر بيٹھنا، سر کے بل کھڑے ہونا اور جھکنا، يوگا کے چند اہم جزہيں۔ سعودی عرب ميں ايک سال پہلے تک ايسی ورزشيں کرنے والی عورتوں کو ملزم قرار ديا جا سکتا تھا تاہم اب ايسا نہيں ہے۔ سعودی عرب ميں ہر قسم کی غير مسلم عبادت ممنوع ہے اور چونکہ يوگا ايک قديم روحانی ہندو روايت ہے، اس پر بھی وہاں کئی دہائيوں تک پابندی عائد رہی۔ البتہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اعتدال پسند اسلام کی پاليسی اپناتے ہوئے گزشتہ برس يوگا کو ايک کھيل قرار ديتے ہوئے اس پر سے پابندی ختم کر دی۔

سعودی سرزمين پر يوگا کو عام شہريوں ميں مقبول بنانے کے ليے نوف مروائی کافی سرگرم ہيں۔ عرب يوگا فاؤنڈيشن کی 38 سالہ سربراہ نے بتايا، ’’مجھے ہراساں کيا گيا اور نفرت انگيز پيغامات موصول ہوئے۔‘‘ مروائی کے بقول 5 سال قبل سعودی عرب ميں يوگا سکھانا نا ممکن تھا۔ نوف مروائی سينکڑوں عورتوں کو يوگا سکھا بھی رہی ہيں اور کئی کو اسے سکھانے کی تربيت بھی دے چکی ہيں۔

سعودی معاشرے کو عورتوں کے ليے کافی قدامت پسند سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہاں عورتوں کے کھلے عام يا عوامی مقامات پر ورزش کرنے پر پابندی تھی۔ اس رعايت نے کئی عورتوں اور لڑکيوں کی زندگياں تبديل کر دی ہيں۔ طب کے شعبے سے وابستہ 32 سالہ آيت سمن کے بقول وہ کئی سال سے’فائبرو ماياگليا‘ نامی ايک ايسی بيماری ميں مبتلا تھيں، جس کی وجہ سے وہ بستر کی ہو کر رہ گئی تھيں۔ درد کی وجہ سے وہ کچھ نہيں کر پاتيں مگر یوگا نے ان کی زندگی بدل ڈالی۔ سعودی عورتوں کے بقول يوگا کی ورزش ايک تھیراپی کے طور پر کام کرتی ہے۔ وہ اس ورزش کے ذريعے جذباتی طور پر بھی کہيں زيادہ آزاد محسوس کرتی ہيں۔

عرب يوگا فاؤنڈيشن کی سربراہ نوف مروائی نے بتايا کہ ملک ميں يوگا پر پابندی کے خاتمے کے کچھ ہی ماہ بعد مکہ اور مدينہ سميت کئی بڑے شہروں ميں يوگا اسٹوڈيوز کھل چکے ہيں۔

دوسری جانب قدامت پسند دھڑوں ميں يوگا کو اب بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو اسے چڑيلوں کے عمل سے بھی تعبير کيا جاتا ہے۔ مروائی کی کئی طلباء کہتی ہيں کہ انہيں يہ سننے کو ملتا ہے کہ وہ اپنے مذہب سے کنارہ کشی کر رہی ہيں۔ بودور حمود بتاتی ہيں، ’’مجھے سماجی رابطوں کی ويب سائٹس پر پيغامات موصول ہوتے ہيں کہ آيا ميں ہندو ہوں يا ميں نے اپنا مذہب ترک کر کے ہندو مذہب اپنا ليا ہے۔‘‘ حمود کے بقول يوگا کا مذہب سے کوئی تعلق نہيں، يہ تو بس کھيل يا ورزش کی ايک شکل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Oct 2018, 7:59 AM