مطلق العنان ممالک اپنے مخالفین کو کیسے ٹارگٹ کرتے ہیں؟

صرف جرائم پیشہ مافیا ہی نہیں لوگوں کے اغوا میں حکومتیں بھی ملوث ہیں۔ کئی ملکوں کی حکومتیں بھی اپنی مخالف شخصیات کو غیر ممالک سے اغوا کروا کر قابو کرتی ہیں۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

سن 2020 میں وسطی ایشیائی ریاست کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں ایک اسکول کے ڈائریکٹر ارہان اناندی کا اغوا ہوا تھا اور ان کے غائب ہو جانے کی شہادتیں بھی میسر نہیں ہو سکی تھیں۔ ایک تفتشی ٹیم تشکیل دی گئی۔ اس ٹیم نے واقعاتی شہادتوں کو بغور جائزہ لیا اور اس واردات میں کرغیزستان کے صدر کو بھی ملوث پایا گیا تھا۔

ہفتوں بعد معلوم ہوا کہ ارہان اناندی کے اغوا میں مجرم یا مافیا ملوث نہیں بلکہ ترک خفیہ ایجنسی ایم آئی ٹی ملوث ہے اور وہی انہیں غیر قانونی طور پر اٹھا کر لے گئی تھی۔ اس اغوا کی وجہ صرف یہ تھی کہ اناندی ترک صدر رجب طیب ایردوان کے کھلے ناقد تھے۔ یہ ریاستی اغوا کی ایک تازہ ترین مثال ہے۔


فریڈم ہاؤس کی رپورٹ

امریکی تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ چین، ترکی اور مصر ایسی ریاستیں ہیں جو ملکی شہریوں سمیت غیرملکیوں کو بھی تنقید کرنے پر نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتیں۔ یہ ممالک دوسرے ملکوں میں مقیم مخالفین کو بھی اپنی کارروائیوں کا نشانہ بنانے سے ڈرتے نہیں۔

اس رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں ایسے افراد کو بغیر مناسب وضاحت کے اپنی پابندیوں کا ہدف بنایا۔ اس مناسبت سے جرمنی میں سے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا خالد المصری کو اغوا اور تشدد کے علاوہ جولیان اسانج کو قتل کرنے کی پلاننگ کو بھی رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ یاہو نیوز نے اسانج کے مبینہ قتل کے منصوبے کو سب سے پہلے رپورٹ کیا تھا۔


یورپی سینٹر فار کانسٹیٹیوشنل اینڈ ہیومن رائٹس کے ریسرچر اندریاس شُولر کا کہنا ہے کہ ایسے تمام اقدامات اخلاقی اعتبار سے قابلِ مذمت ہونے کے علاوہ خلافِ قانون بھی ہیں۔ ان کے مطابق ریاستوں کے سربراہ عدالتی استثنیٰ رکھتے ہیں لیکن خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کو یہ استثنیٰ میسر نہیں ہوتا۔ شولر کا مزید کہنا ہے کہ مخالف سیاسی جماعتوں کی تقریبات کو نشانہ بنانا اور مطلق العنان ریاستوں کے سربراہان، اپوزیشن رہنماؤں کو جلا وطنی میں بھی خاموش رکھنے کو اپنی حکومت کے لیے بہتر خیال کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں چین کا ایغور نسل کے جلاوطن افراد کو تلاش کرنے کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ اسی طرح روسی اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی پر زہر کا حملہ اور استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کو حالیہ دور کی مثالوں میں شامل کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں ریاست مخالف 26 افراد کے قتل اور 20 حملوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ایسے حملوں میں روس سب سے آگے ہے اور اس کے حملوں کی تعداد سات ہے۔


رپورٹ کے مطابق ترکی تو انٹرنیشنل قانون کی خلاف ورزی کا جشن منانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ سن 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد مبلغ فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک کو جس طرح نشانہ بنایا گیا وہ ایک اہم مثال ہے۔عرب دنیا کا ملک مصر بھی دوسرے ملکوں میں اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کے کئی واقعات میں ملوث ہے۔

جاسوسی کا نظام

امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس کے مطابق سن 2014 سے دنیا میں 31 ایسی ریاستیں ہیں، جنہوں نے انٹرنیشنل قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر ممالک سے اپنے مخالفین کو اغوا کر کے جبر کا نشانہ بنایا۔ غیرقانونی اغوا کے علاوہ مختلف ریاستیں اپنے دوطرفہ تعلقات کی بنیاد پر بھی اپنے مخالفین کو ڈی پورٹ کراوتی رہی ہیں۔


ایسے واقعات میں قتل اور مہلک اشیا کے حملے بھی شامل ہوتے ہیں۔ فریڈم ہاؤس کی ایک ماہر ازابیل لنزر کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئے اور ان کا سراغ بھی نہیں مل سکا۔ لنزر کے مطابق کئی ریاستوں کا اپنا ایک جاسوسی نظام قائم ہے، جو سوشل میڈیا پر فوکس رکھتا ہے اور حکومتی مخالفین کی نگرانی اور انہیں ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

قانونِ بین الاقوام کا کوئی احترام نہیں

فریڈم ہاؤس نامی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق سن 2014 سے لے کر اب تک 607 حکومت مخالفین کا قتل اور اغوا کیا جا چکا ہے۔ اس میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن پر حملے بھی کیے گئے۔ اس رپورٹ میں سائبر جاسوسی اور آن لائن حراسی کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ مختلف مبصرین کے مطابق اس تناظر میں یہ رپورٹ کسی حد تک نامکمل قرار دی جا سکتی ہے کیونکہ جدید دور کے ایک بڑے مسئلے کو نظرانداز کیا گیا ہے۔


یورپی مرکز برائے دستوری اور انسانی حقوق کے محقق اندریاس شُولر کا اس مناسبت سے کہنا ہے کہ انٹرنیشنل قوانین کا ایسے واقعات میں کوئی احترام نہیں دیکھا گیا اور خاص طور پر مطلق العنان ریاستوں میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔