بااثر ایرانی مذہبی رہنما سلیمانی کے قتل کے محرکات ہنوز غیر واضح

گزشتہ برسوں کے دوران یہ کسی اہم ترین مذہبی رہنما کے قتل کا پہلا واقعہ ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای کے سابق نمائندے آیت اللہ عباس علی سلیمانی کو بدھ کے روز ایک بینک میں قتل کر دیا گیا۔

بااثر ایرانی مذہبی رہنما سلیمانی کے قتل کے محرکات ہنوز غیر واضح
بااثر ایرانی مذہبی رہنما سلیمانی کے قتل کے محرکات ہنوز غیر واضح
user

Dw

آیت اللہ خامنہ ای کے سابق نمائندے، مجلس خبرگان رہبری کے رکن اور انتہائی اہم مذہبی رہنما آیت اللہ عباس علی سلیمانی کے قاتل کو حالانکہ گرفتار کرلیا گیا ہے اور اس سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے لیکن قتل کا مقصد اب تک واضح نہیں ہو سکا ہے۔

اس دوران سلیمانی پر قاتلانہ حملے کی ویڈیو سامنے آگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی مبینہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آیت اللہ عباس علی سلیمانی پر حملہ آور نے پیچھے سے فائرنگ کی۔ یہ واقعہ بدھ کے روز مازندران صوبے کے بابلسر شہر میں پیش آیا۔


ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی 'تسنیم‘ نے قتل سے متعلق ایک ویڈیو کلپ نشر کی ہے جس میں ایک بندوق بردار سیدھے سلیمانی کی طرف جانے سے پہلے تھوڑا سا آگے بڑھتا ہوا نظر آیا اور بالکل قریب سے ان پر پیچھے سے گولی چلا دی۔ جس وقت ان پر حملہ ہوا وہ ایک ذاتی کام کے سلسلے میں بینک میں تھے۔

مازندران کے گورنر محمود حسینی پور نے بتایا کہ حملہ آور بینک کا مقامی سکیورٹی اہلکار تھا۔ انہوں نے کہا، 'ابھی تک ہماری معلومات اور کاغذات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سکیورٹی یا دہشت گردی کا معاملہ نہیں تھا۔‘ انہوں نے مزید کہا ، ’حملہ آور کا محرک ابھی واضح نہیں ہے، جو سامنے آنے پر بتا دیا جائے گا۔‘


آیت اللہ عباس علی سلیمانی کا قتل ایران میں حالیہ برسوں کے دوران کسی بڑے عالم دین کے خلاف سب سے اہم حملوں میں سے ایک ہے۔ یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے، جب ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔

22 سالہ مہسا امینی کو ملک میں حجاب کے سخت قانون پر عمل درآمد نہ کرنے کے الزام میں اخلاقی پولیس نے گرفتار کرلیا تھا اور حراست کے دوران ہی ان کی موت ہو گئی تھی۔


آیت اللہ عباس علی سلیمانی ایران کے رہبر اعلیٰ کا انتخاب کرنے والے ماہرین کی کمیٹی کے رکن تھے۔ 75 سالہ سلیمانی ماضی میں اسلامی جمہوریہ کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے نمائندے رہ چکے ہیں۔ وہ وسطی صوبے اصفہان کے شہر کاشان اور جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان کے شہر زاہدان میں نماز جمعہ کی امامت بھی کرواتے رہے۔

وہ ایران کی شورائے خبرگان کے رکن بھی تھے۔ ایران کے آئین کے مطابق 88 ارکان پر مشتمل شورائے خبرگان (اسمبلی مجلس خبرگان رہبری) انتہائی اہم ترین ادارہ ہے جسے ایران کے سپریم لیڈر کی نگرانی، تقرری کرنے اور برطرف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ایران کے پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے صوبائی حکام کو اس قتل کے "اسباب کی مختلف پہلووں سے جانچ کرنے اور ضروری کارروائی کے علاوہ اس کے نتائج سے آگاہ کرنے" کا حکم دیا ہے۔


خیال رہے کہ اپریل 2022 میں مشہد میں امام رضا کے مقبرے پر ایک شخص نے دو شیعہ عالم دین کو چاقو مار کرہلاک اور ایک کو زخمی کر دیا تھا۔ مشہد میں یہ حملہ ایران کے شمالی قصبے میں ایک مدرسے کے باہر دو سنی علما کو گولی مار کر قتل کرنے کے چند دن بعد ہوا تھا۔

نیم سرکاری خبر رساں ادارے 'تسنیم‘ نے اس وقت رپورٹ کیا تھا کہ اس حملے کا ملزم 21 سالہ عبداللطیف مرادی ایک ازبک نژاد تھا جو پاکستانی سرحد کے راستے سے غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہوا تھا۔ بعد ازاں ملزم کو اسی شہر میں سزائے موت دی گئی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔