بھارت: دھرم گرو پر کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات
جنوبی ریاست کرناٹک میں سیاسی لحاظ سے انتہائی اہم لنگایت کمیونٹی کے ایک دھرم گرو کو دو کمسن لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں حراست میں لینے کے فوراً بعد ہی رہا کر دیا گیا۔
جنوبی ریاست کرناٹک کے چتردرگا میں واقع انتہائی اہمیت کے حامل مروگا مٹھ (آشرم) کے چیف اور لنگایت فرقے کے مذہبی رہنما شیوامورتی شرنارو کو پیر 29 اگست کو اس وقت حراست میں لے لیا گیا جب وہ کرناٹک سے مبینہ طور پر فرار ہو کر پڑوسی ریاست مہاراشٹر کی طرف جا رہے تھے۔ حالانکہ شرنارو نے اس کی تردید کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس کے اصرار پر دھرم گرو شیوا مورتی شرنارو چتردرگا میں اپنے مروگا آشرم میں واپس لوٹ آئے۔ جہاں انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، "وہ مفرور ہونے کی کوشش نہیں کر رہے تھے۔ وہ ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں اور پولیس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔" انہوں نے اپنے اوپر عائد الزامات کی بھی تردید کی۔
کیا ہیں الزامات؟
لنگایت فرقے کا کرناٹک اور اطرف میں خاصا سیاسی اور سماجی اثر ورسوخ ہے۔ شرنارو جس مروگا آشرم کے چیف ہیں، اس کے تحت 150 سے زائد روحانی اور تعلیمی ادارے کام کرتے ہیں۔
ان کے زیرانتظام چلنے والے ایک ادارے میں زیر تعلیم 15 اور 16برس کی دو لڑکیوں نے شرنارو پر گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل جنسی استحصال کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شرنارو انہیں مختلف بہانے سے اپنے مخصوص کمرے میں بلاتے تھے اور ان کا جنسی استحصال کرتے تھے۔ ایک لڑکی کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ پچھلے ساڑھے تین برس سے جب کہ دوسری لڑکی کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ برس سے جنسی استحصال کیا جا رہا تھا۔
انہوں نے ایک مقامی این جی او 'اوداندی' کے عہدیداروں کو اپنی کہانی سنائی، جس نے چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے ساتھ مل کر پولیس میں اس کی باضابطہ شکایت درج کرائی۔اس کیس میں ہوسٹل کے وارڈن سمیت چار دیگر افراد کو بھی ملزم بنایا گیا ہے۔
'اوداندی' کے سربراہ کے وی اسٹینلی کا کہنا ہے، "یہ صرف دو لڑکیوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ ادارے میں زیر تعلیم دیگر لڑکیوں کو بھی ہراساں کیے جانے کی خبریں ہیں۔ ہم بچیوں کے حوالے سے فکرمند ہیں۔"
لنگایت کمیونٹی کون ہیں؟
کرناٹک میں لنگایت کمیونٹی سیاسی لحاظ سے کافی طاقت ور ہے۔ ریاست کی مجموعی آبادی میں ان کا حصہ 17 فیصد ہے اور 224 اسمبلی سیٹوں میں سے تقریباً 100 ان کے پاس ہیں۔ اس فرقے سے تعلق رکھنے والے 9 افراد کرناٹک کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔
لنگایت کمیونٹی کو گوکہ عام طور پر ہندوؤں کا ہی ایک فرقہ سمجھا جاتا ہے تاہم یہ گروپ خود کو ہندوؤں سے الگ قرار دیتا ہے۔ یہ ہندوؤں کے روایتی پوجا کو تسلیم نہیں کرتے اور بارہویں صدی کے سنت فلسفی باسوونا کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے۔ آر ایس ایس جیسی تنظیمیں لنگایت کو ہندو دھرم کا حصہ بنانے کی مہم چلاتی رہی ہیں لیکن لنگایت فرقے سے اس کی مخالفت بھی ہوتی رہی ہے۔
سیاسی لحاظ سے ان کی اہمیت کے مدنظر تمام سیاسی جماعتیں ان سے اچھے تعلقات بنانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی بھی شرنارو کا آشیر واد لینے کے لیے اس ماہ کے اوائل میں مروگا آشرم گئے تھے۔
شرناروکے کیس پر بی جے پی میں اختلافات
شرنارو کے خلاف بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے پوسکو قانون اور اغوا کے تحت کیس درج کیا گیا ہے۔ لیکن اس پر ریاست کی حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔
ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے سینیئر رہنما بی ایس یدیورپا نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا، "یہ ایک سازش ہے، تفتیش ہو رہی ہے اور سچائی سامنے آجائے گی۔"
لیکن بی جے پی کے رکن پارلیمان لہر سنگھ سرویا نے ملزم کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا، "ایسے سنگین واقعات جب بھی ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہمارے اپنے افراد اور ہمارے اطراف پر سے ہمارا یقین متزلزل ہوجاتا ہے۔" انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت ہو تو اس کیس کو کرناٹک سے باہر کسی دوسری ریاست میں منتقل کیا جائے۔
وزیر اعلی باسوراج بومئی کا کہنا تھا، "پولیس تفتیش کررہی ہے۔ اس لیے فی الحال کچھ کہنا مناسب نہیں۔ پولیس تفصیلی جانچ کرے گی اور حقیقت سامنے آجائے گی۔" کانگریس پارٹی کے ریاستی ترجمان ڈاکٹر شنکر گوہا نے کہا کہ ریاست میں انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے سے گریز کیا جائے۔
کرناٹک میں اگلے برس اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں لنگایت کمیونٹی کو اپنی جانب راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن راگھوویندرا کا کہنا ہے کہ مروگا آشرم کے چیف کے ساتھ وی وی آئی پی جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں کرناٹک پولیس پر اعتماد نہیں ہے۔
بھارت میں مختلف دھرم گروؤں پر خواتین کے ساتھ جنسی استحصال اور ریپ کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی کئی معروف دھرم گرو اور سنت مختلف الزامات کے تحت جیلوں میں بند ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔