کیا پاکستان پھر ضیاء الحق کے راستے پر گامزن ہے؟ نئے نصاب ميں مذہب کی طرف جھکاؤ
پاکستان ميں عنقريب نيا نصاب متعارف کرايا جا رہا ہے۔ ايسے ميں سيکولر قوتوں کو خدشہ ہے کہ ملک مزيد مذہبی انتہاپسندی کی طرف جا سکتا ہے جبکہ حکومت اس تنقيد کو رد کرتی ہے۔
جلد ہی پاکستان ميں ملک گير سطح پر تعليمی اداروں ميں يکساں نصاب لاگو ہونے والا ہے۔ يہ سلسلہ پرائمری اسکولوں سے شروع کيا جائے گا۔ طلباء کے ليے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی تعليم، قرآن کا ترجمہ پڑھنا اور متعدد احادیث ياد کرنا لازمی ہو گا۔ نئے قوانين کے مطابق اسکولوں پر لازم ہو گا کہ وہ دينی تعليمات کے ليے کسی تصديق شدہ حافظ قرآن کی خدمات حاصل کريں۔
ناقدين اس عمل کے خلاف ہيں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس مجوزہ عمل سے ملک ميں مذہبی قوتوں کے اثر و رسوخ اور مذہبی بنيادوں پر تقسيم ميں اضافہ ہو گا۔ شعبہ تعليم سے وابستہ ڈاکٹر عبدالحميد نيئر نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ طلبا کو پورے کے پورے قرآن کی تعليم کے ساتھ اس کا ترجمہ اور اسلاميات بھی پڑھائی جائے گی۔ ان کے مطابق انگريزی، اردو اور سوشل اسٹڈيز کے نصاب ميں بھی تراميم کی گئی ہيں اور ان ميں بھی مذہب کا عنصر بڑھا ديا گيا ہے۔ عبدالحميد نيئر کا ماننا ہے کہ تيزی سے بدلتے ہوئے آج کل کے دور ميں تنقيدی سوچ معاشرے کا اہم حصہ ہے مگر حکومت نصاب کے ذريعے بظاہر اس کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔
ضياء الحق کا دور اور مذہبی اثر و رسوخ ميں اضافہ
پاکستان ميں ابتداء ہی سے رياست اور قدامت پسند مذہبی قوتيں قريب رہی ہيں۔ سن 1970 کی دہائی ميں اس عمل ميں تيزی آئی اور سن 1980 کی دہائی ميں سابق صدر جنرل ضياء الحق کے دور ميں متعدد تراميم کے ذريعے پاکستان کی لبرل اقدار کو پس پشت ڈال ديا گيا۔ ضياء الحق کی حکمرانی ميں کئی متنازعہ اسلامی قوانين متعارف کرائے گئے، نصاب ميں تبديلياں کی گئيں، ملک بھر ميں مدارس کھلے اور عدليہ ميں بھی مذہبی رجحانات کے حامل افراد کی تقرری عمل ميں آئی۔ سن 1988 ميں سابق فوجی آمر کی وفات کے بعد گو کہ تراميم اس طرح نہيں کی گئيں مگر تقريباً تمام ہی حکومتوں نے مذہبی قوتوں سے ناراضی مول نہیں لی۔
وزير اعظم عمران خان کی سياسی جماعت پاکستان تحريک انصاف نے سن 2018 ميں يکساں نصاب متعارف کرانے کا وعدہ کيا تھا۔ اس وقت کئی کو توقع تھی کہ سائنس، آرٹس، لٹريچر اور ديگر علوم ميں بہتری لائی جائے گی۔ ليکن دو برس قبل جب پی ٹی آئی حکومت نے اپنا منصوبہ پيش کيا، تو اس ميں اسلامی تعليمات پر خاصی توجہ ديکھی گئی۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے نيا نصاب لاگو ہونے ميں تاخير ہوئی مگر اب عنقريب يہ ہونے والا ہے۔ پرائمری اسکول کی کتابيں چھپ چکی ہيں۔ اگلے مرحلے ميں مڈل اسکول اور ہائی اسکول کے طلباء کے ليے بھی نيا نصاب متعارف کرايا جانا ہے۔
لاہور ميں مقيم ربينہ سيگل کا کہنا ہے کہ پبلک اسکولوں ميں مدارس کے طرز کی تعليم متعارف کرانے کے سنگين نتائج برآمد ہوں گے۔ تعليم کے شعبے سے وابستہ سيگل نے ڈی ڈبليو سے بات چيت ميں کہا، ''نئے نصاب سے ايسے طلباء نکليں گے، جو دنيا کو قدامت پسند اسلامی نقطہ نظر سے ديکھيں گے۔ ايسے طلباء خواتین کو کمتر سمجھيں گے اور ان کی آزادی کے خلاف ہوں گے۔‘‘
پاکستان ميں نيوکليئر فزکس کے ماہر پرويز ہودبھائی کا بھی ماننا ہے کہ نيا نصاب تعليمی نظام پر ايسے اثر انداز ہو گا کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہيں ملتی۔ ان کے مطابق نئے نصاب ميں پوشيدہ تبديلياں، جنرل ضياء کی جانب سے متعارف کردہ تبديليوں سے کہيں زيادہ اثرات مرتب کر سکتی ہيں۔ پاکستان ميں چند افراد نے اس تبديلی کو عدالت ميں چيلنج کر ديا ہے۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم پيٹر جيکب کا کہنا ہے کہ نئے نصاب ميں تيس سے چاليس فيصد مواد مذہب کی بنياد پر ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ کئی لوگوں نے عدالت سے رجوع کيا ہے کيونکہ چند تراميم آئين کے خلاف ہيں۔
ملک ميں نہ صرف لبرل قوتيں بلکہ چند سياسی جماعتيں بھی اس پر تحفظات کی شکار ہيں۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رکن پارليمان کشور زہرہ کا کہنا ہے، ''ہميں بنگلہ ديش سے سيکھنا چاہيے جہاں سيکولر اقدار کو فروغ ديا جا رہا ہے۔‘‘ ان کے بقول نصاب ميں مذہبی مواد شامل کرنے کا مقصد مذہبی قوتوں کو خوش کرنا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی حکومت نے تمام تر تنقيد کو رد کر ديا ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن پارليمان محمد بشير خان کا کہنا ہے کہ پاکستان بنيادی طور پر ايک اسلامی ملک ہے اور اسی ليے مذہبی تعليمات لازمی ہيں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔