‘’امریکا کا اصل المیہ منظم نسلی تعصب ہے‘‘ تبصرہ
سفید فام لوگوں کی اکثریت آج بھی اس بات سے انکاری ہےکہ امریکا میں نسلی تعصب ایک تلخ حقیقت ہے۔ ایسے میں سفید فام امریکیوں کو صرف امن کی نہیں بلکہ انصاف کی بات بھی کرنی ہو گی۔
ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار جینیفر کامینو گونزالیز لکھتی ہیں کہ امریکی شہریوں کے لیے جلتی موٹر گاڑیاں، آنسو گیس کے بادل، پولیس اور مظاہرین کی جھڑپیں پریشان کن ضرور ہیں لیکن کوئی چونکا دینے والی بات نہیں۔ ایک سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام امریکی کی ہلاکت یقینی طور پر ایک افسوسناک واقعہ ہے، لیکن یہ بھی کوئی چونکا دینے والا نہیں کیونکہ ایسے واقعات کی ویڈیوز پہلے بھی کئی مرتبہ منظر عام پر آئی ہیں۔
جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے واقعے کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں سن 2015 کے ریاست میزوری کے شہر فرگوسن میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کی گونج ہے۔ اسی طرح سن 1992 میں روڈنی کنگ نامی سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد بھی پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے، جنہیں شہری حقوق کی تحریک قرار دیا گیا۔
گونزالیز کے بقول جارج فلوئیڈ کی ہلاکت نے امریکا کو ایسے وقت میں اپنی گرفت میں لیا ہے، جب مہلک کورونا وائرس سے ایک لاکھ سے زائد امریکی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس وبا نے شرح بیروزگاری میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ بیروزگار ہونے والے امریکی شہریوں کی تعداد تین کروڑ سے زائد ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ امریکا میں سیاسی تقسیم اور عدم مساوات نے قومی تشخص کو زد پہنچائی ہے۔ اس کے علاوہ طبقاتی خلیج بھی بڑھتی گئی ہے۔
وہ مزید لکھتی ہیں کہ ایسے حالات میں دانشور، ماہرین اور سماجی کارکنان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہیں امریکا کی منطقی ٹوٹ پھوٹ کا وقت تو نہیں آن پہنچا۔ کورونا کے باوجود ریاستی اور بنیادی معاشرتی ڈھانچے کی خرابیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان میں سب سے اہم منظم نسلی تعصب ہے۔ سماجی ماہرین کے مطابق یہ تعصب امریکا کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
فروری میں سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جارجیا میں ایک سیاہ فام شخص کو دو سفید فام گارڈز نے جوگنگ کے دوران گولی مار دی تھی۔ ایک اور ویڈیو میں نیویارک شہر میں ایک خاتون نے محض اس لیے پولیس کو بلا لیا کہ پارک میں ایک سیاہ فام شخص پارک رولز پر عمل نہیں کر رہا تھا۔ تعصب کا یہ عالم تھا کہ خاتون نے اس شخص پر اپنا کتا چھوڑ دیا تھا۔ بعد میں اس خاتون نے پولیس کے سامنے کہا کہ اسے اور اس کے کتے کو اس سیاہ فام شخص سے خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔
گونزالیز کے بقول سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ پولیس اور نظام انصاف بھی اس وقت منظم نسلی تعصب کے خطوط پر رواں دواں ہے۔ سن 2015 میں فرگوسن شہر کے فسادات کے دوران یہ نعرہ 'بلیک لائیوز میٹر‘ یعنی سیاہ فام زندگیاں بھی اہم ہیں مشہور ہوا تھا۔ اس کے جواب میں ایک نیا نعرہ جلد ہی متعارف کر دیا گیا کہ 'آل لائیوز میٹر‘ یعنی سبھی زندگیاں اہم ہیں۔ پولیس کے خلاف بڑھتی عدم برداشت نے ایک نئے نعرے کو جنم دیا اور وہ 'بلُو لائیوز میٹر‘ یعنی نیلی زندگیاں بھی اہم ہیں۔ اس نعرے کا مقصد پولیس اہلکاروں کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا تھا۔
جینیفر کامینو گونزالیز اپنے تبصرے میں لکھتی ہیں کہ اگر ان جوابی تحریکوں کے پیچھے قدامت پسند سفید فام حلقے سرگرم ہوں تو اس میں کسی کو تعجب نہیں ہوگا۔ رائے عامہ کے متعدد جائزوں میں ریپبلکن ووٹرز عام طور پر پولیس پر زیادہ اعتماد کا اظہار کرتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹ ووٹرز، ہسپانوی امریکی اور افریقی امریکیوں کی نسبتاﹰ کم تعداد پولیس پر اعتماد کرتی ہے۔
گونزالیز کے بقول ایسے میں ایک عام شخص کی معمول کی زندگی کا پہیہ تقریباً رکتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ منقسم امریکی معاشرے میں مفاد پرست سیاسی لیڈر سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورت حال نے مجموعی ترقی کے سفر کو گہنا دیا ہے۔ معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ سماجی ماہرین کے مطابق امریکی معاشرتی اور معاشی تقسیم کی وجہ سفید فام نسل کا مبینہ نسل پرست رویہ ہے۔ تبصرہ نگار کے مطابق اس مسئلے کا حل بھی سفید فام آبادی کے پاس ہے۔ امریکا میں منظم نسلی تعصب کے خاتمے اور ترقی کے لیے سفید فام آبادی کو عملی طور پر متحرک ہونا ہو گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔