مہاجرین کی آمد اور یورپ کا ’دوہرا معیار‘

یوکرین کے ہزاروں مہاجرین ہر روز یورپی ممالک کی سرحدوں پر پہنچ رہے ہیں۔ ان کا خوش دلی سے استقبال کیا جا رہا ہے،یہاں تک کہ پولینڈ، ہنگری، بلغاریہ، مالدووا اور رومانیہ کے رہنماؤں نے بھی خوش آمدید کہا ہے۔

مہاجرین کی آمد اور یورپ کا ’دوہرا معیار‘
مہاجرین کی آمد اور یورپ کا ’دوہرا معیار‘
user

Dw

جہاں یورپ کی اس مہمان نوازی کی تعریف کی جا رہی ہے، وہاں کئی یورپی ممالک کے اس مختلف رویے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، جو انہوں نے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور خاص طور پر شامی مہاجرین کے حوالے سے اپنایا تھا۔

صرف یہی نہیں بعض یورپی رہنماؤں کے بیانات بھی شدید تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والے ہیں۔ جیسے کہ بلغاریہ کے صدر رومین رادیو کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ وہ مہاجرین نہیں ہیں، جن کے ہم عادی ہیں۔ یہ لوگ یورپی ہیں۔‘‘


اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا، ''یہ ذہین اور تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ یہ ویسے مہاجرین نہیں ہیں، جن کے ہم عادی ہیں، جن کی شناخت کے بارے میں ہمیں علم نہیں، جن کے ماضی کا ہمیں علم نہیں، جو دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''دوسرے لفظوں میں کوئی ایک بھی یورپی ملک ایسا نہیں ہے، جو مہاجرین کی اس لہر سے خوفزدہ ہو۔‘‘ شامی صحافی عقبہ محمد کا کہنا ہے کہ یہ بیان، ''نسل پرستی اور اسلاموفوبیا پر مشتمل ہے۔‘‘ یہ شامی صحافی سن دو ہزار اٹھارہ میں بطور مہاجر یورپ آیا تھا اور اب اسپین میں مقیم ہے۔ اسپین میں ایک میگزین کے مدیر اس صحافی کا کہنا تھا، ''ایک پناہ گزین ایک پناہ گزین ہوتا ہے، چاہے وہ یورپی ہو، افریقی یا پھر ایشیائی۔‘‘


مہاجرین مخالف رہنماؤں کا بدلتا رویہ

اگر بات یوکرائن کے مہاجرین کی ہو تو بہت سے یورپی رہنماؤں کا رویہ بدلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان میں وہ رہنما بھی شامل ہیں، جو مہاجرین کے حوالے سے انتہائی سخت رائے رکھتے ہیں۔ تین ماہ پہلے ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان کا مشرق وسطیٰ اور افریقی مہاجرین کے حوالے سے کہنا تھا، ''ہم کسی ایک کو بھی داخل نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ رواں ہفتے یوکرائن کے لوگوں سے مخاطب ہو کر انہوں نے کہا، ''ہم سب کو داخل ہونے دیں گے۔‘‘

صرف یہ نہیں بلکہ صحافیوں کے رویے بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ الجزیرہ ٹیلی وژن کے ایک میزبان نے بھی کہا کہ یہ خوشحال اور مڈل کلاس لوگ ہیں اور افریقی یا پھر عرب مہاجرین کی طرح نہیں ہیں، ''یہ کسی یورپی خاندان ہی کی طرح لگتے ہیں، جو آپ کے پڑوس میں رہ رہے ہوتے ہیں۔‘‘ تاہم اس چینل نے اس غیرمناسب تبصرے پر معافی مانگی ہے۔


تاہم سن دو ہزار پندرہ میں رضاکار یونانی جزیروں پر بھی پہنچے تھے تاکہ مہاجرین کا استقبال کیا جا سکے۔ اسی طرح جرمنی کے ریلوے اور بس اسٹیشنوں پر تالیاں بجا کر شامی مہاجرین کا استقبال بھی کیا گیا تھا۔ لیکن یہ والہانہ استقبال اس وقت ماند پڑ گیا تھا، جب یورپی یونین کے متعدد ممالک نے مہاجرین کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت سب سے زیادہ مخالفت ہنگری اور پولینڈ جیسے وسطی اور مشرقی یورپی ممالک نے کی تھی۔ پھر ایک ایک کر کے متعدد یورپی ممالک نے سیاسی پناہ کے طریقہ کار اور پالیسیوں کو سخت بنانے کا عمل شروع کردیا۔

اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر میں پالیسی سازی کے سابق سربراہ جیف کریسپ کا کہنا تھا، ''نسل اور مذہب نے مہاجرین کے ساتھ رویے کو اثرانداز کیا ہے، بہت سے لوگوں کی طرح یہ اوربان کا دوہرا معیار ہے۔‘‘


تاہم یوکرائن کے یورپ کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی روابط بھی رہے ہیں۔ جیف کریسپ کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے یورپی لوگوں کی ہمدردی فطری ہے کہ زبان اور ثقافت وغیرہ ملتی جلتی ہیں۔ پہلے ہی لاکھوں یوکرائنی باشندے یورپی یونین میں ضم ہو چکے ہیں اور مختلف ممالک میں رہتے ہیں۔

دوسری جانب ایسی رپورٹوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ روسی حملوں کی وجہ سے یوکرائن سے فرار ہونے والے دیگر رنگ و نسل کے افراد کو امتیازی سلوک اور رویے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یوکرائنی مہاجرین کو تو سرحد عبور کرنے کی اجازت فراہم کی جا رہی ہے لیکن نائجیریا، بھارت اور لبنان وغیرہ کے مہاجرین پولینڈ کی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں۔


ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ افریقی طالب علموں کو یوکرائن سے باہر نکلنے کے لیے ٹرین پر سوار ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ پولینڈ کی سرحد پر ایک بھارتی طالب علم کو روک کر کہا گیا کہ وہ رومانیہ جائے اور اس کو تین دن پیدل سفر کر کے رومانیہ کی سرحد پر جانا پڑا۔

اسی طرح بھارتی طالب علموں کا ایک دوسرا گروپ، جو پولینڈ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا لیکن انہیں شیلٹر فراہم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ امداد یوکرائنی شہریوں کے لیے ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔