افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی، پاکستان میں بھی احتجاج
افغانستان میں طالبان کے تعلیم مخالف اقدامات کے خلاف افغان مہاجرین پاکستان میں بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین کے مطابق طالبان عوام کو تعلیم سے دور رکھ کر شدت پسندی اور انتہاپسندی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت متعدد دیگرعلاقوں میں افغان مہاجرین نے طالبان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔ ان مظاہروں میں افغان طالبان کی پالیسوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
مظاہرین نے، ''افغان عوام کو تعلیم دو‘‘ کے نعرے لگائے اور خواتین کی تعلیم پرعائد پابندیاں فوری طور پرختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ کوئٹہ میں احتجاج کے دوران مظاہرین کا کہنا تھا کہ طالبان جان بوجھ کوافغان عوام کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
35 سالہ افغان سماجی کارکن روہا حمیدی گزشتہ دس سالوں سے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ کوئٹہ میں مقیم ہے۔ روہا کہتی ہیں افغانستان میں طالبان نے افغان عوام کو شدید اذیت کا شکار بنا رکھا ہے۔ کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرے کے موقع پرڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''یہاں مقیم لاکھوں افغان مہاجر افغانستان میں بدامنی اوردیگر انسانیت سوز واقعات پر شدید تشویش کا شکار ہیں۔ ہمیں افغانستان میں اپنے پیاروں کی جانوں کی فکر لاحق ہے۔ طالبان کے انتہا پسند نظریات نے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ حال ہی میں افغان خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے کے لیے جو فیصلے کیے گئے انہیں افغان عوام نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ طالبان ظلم وستم سے افغان عوام کو حق خودارادیت سے کسی بھی طور پر پیچھے نہیں ہٹا سکتے۔‘‘
روہا حمیدی کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین اپنے حقوق کے لیےدنیا بھر میں طالبان کے خلاف سراپااحتجاج ہیں۔ ان کے بقول،''ہم مجبور ہیں تعلیم سے دوری ہمیں دن بدن تباہی سے ہمکنار کر رہی ہے۔ صنفی بنیاد پر تعلیم سے انکار کا کوئی مذہبی جواز نہیں ہے ۔ طالبان اسلام کی اپنے مفادات کے مطابق غلط تشریح کر رہے ہیں ۔ منظم سوچ کے تحت افغان عوام پر جنگ مسلط کی گئی ہے ۔ افغان مہاجرین نے آج اپنےاحتجاج کے ذریعے اقوام عالم سے یہ سوال کیا ہے کہ افغان عوام کا مستقبل کیا ہوگا؟‘‘
طالبان کی تعلیم مخالف پالیسیوں کو پاکستان میں مقیم افغان علماء بھی قواعد و ضوابط کے برعکس سمجھتے ہیں۔ افغان صوبے ننگرہار سے تعلق رکھنے والے پچپن سالہ ، مولوی ذاکرالدین بھی کچھ عرصہ قبل افغانستان سے کوئٹہ منتقل ہوئے تھے۔ پشتون آباد میں رہائش پزیر ذاکرالدین کہتے ہیں طالبان کی تعلیمی پالیسیاں زمینی حقائق کی بجائے ذاتی خواہشات پر مرتب کی جا رہی ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''طالبان نے جو پالیسیاں اس وقت افغانستان میں مرتب کی ہیں، ان کے کئی متنازعہ پہلو ہیں۔ طالبان طاقت کے زور پر افغان عوام کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اٹھائے گیے اقدامات سے ان کے خلاف ملک میں نفرت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت افغانستان میں تعلیمی نظام بیرونی امداد پر منحصر ہے۔ طالبان کا یہ بھی خیال ہے کہ شاید موجودہ نظام تعلیم کوان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ اس تعلیمی ڈھانچے کو اپنے نظریات کے مطابق ترتیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مذید کہا،''زورزبردستی عوام پراپنے نظریات لاگو کرنے کے بجائے طالبان کو اپنا عملی کرداربہتر بنانا ہوگا۔ جس چیز کی اس وقت افغانستان میں اشد ضرورت ہے وہ ہے حالات کوسازگاربنانا۔ افغان عوام شورش کی وجہ سے دن بدن ملک چھوڑنے پرمبجور ہو رہے ہیں۔ افغانستان کو بحرانوں سے نکالنے کے بجائے عوام پر انتہا پسند نظریات نافذ کیے جا رہے ہیں جو کہ کسی بھی طور پر سود مند ثابت نہیں ہوسکتے۔‘‘
بلوچستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے علاوہ دس لاکھ سے زائد ایسے افغان مہاجرین بھی مقیم ہیں جنہیں وہ سولیات میسر نہیں جوکہ رجسٹرڈ مہاجرین کو حاصل ہیں۔ افغان مہاجرین کے لیے قائم کیے گئے تین اہم تعلیمی ادارے بھی کچھ عرصہ قبل کوئٹہ میں سیل کر دیے گیے تھے۔ افغان بچوں کی تعلیم کے لیے مختلف رفاعی ادارے بھی بلوچستان میں کام کررہے ہیں۔ ایک نجی رفاعی ادارے سے وابستہ منصور امیری کہتے ہیں بی الاقوامی اداروں کو افغانستان کی نئی نسل کو انتہاپسندی سے بچانے کے لیے عملی کردار ادا کرنا ہوگا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''حقائق سے یہ واضح ہے کہ اس وقت ہماری نئی نسل کس قدر بحرانی صورتحال سے دوچار ہے۔ تعلیمی صورتحال کوبہتر بنائے بغیر افغانستاں کو کوئی فرد یا ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرسکتا۔‘‘
مصںور امیری کا کہنا تھا کہ سنہ 1990 کے مقابلے میں طالبان کے سخت گیرنظریات میں تبدیلی سامنے آئی ہے لیکن جدید تعلیمی نظام پر ان کا کردار متنازعہ ہے۔ انہوں نے مذید کہا، ''طالبان خواتین کی تعلیم کے حوالے سے جو دلائل پیش کر رہے ہیں وہ زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔ افغانستان میں جس مخصوص نظام تعلیم کی بات کی جارہی ہے اسے لاگو کرنے کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔‘‘
بلوچستان میں مقیم افغان مہاجرین نے مطالبات کے حق میں شروع کی گئی تحریک کا دائرہ کار وسیع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ پاکستان کی وزارت اطلاعات ونشریات نے چند روز قبل ایک اعلامیے میں واضح کیا تھا کہ زائد المدت غیر ملکی شہری ملک میں جنرل ایمنسٹی سکیم سے رواں ماہ 31 دسمبر تک استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔
اس اعلامیے یہ بھی کہا گیا تھا کہ غیرقانونی طور پر مقیم شہریوں کو مقررہ مدت کے بعد گرفتارکرکے تین سال قید کی سزا اور مستقبل میں پاکستان میں داخلے پر مستقل پابندی عائد کی جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔