مینا کماری کا مذہب تبدیل کر کے مسلم لڑکے سے شادی کرنا متنازعہ کیوں بنا؟
خیبر پختونخوا کے ضلع بونیرمیں سکھ لڑکی کے مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کرنے پر سکھ برادری سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ انکا موقف ہے کہ سکھ لڑکی کو اغوا کرکے تبدیلی مذہب کے بعد مسلمان لڑکے سے شادی کرائی گئی۔
بونیر کے علاقہ ڈگر میں احتجاج کے دوران سکھ برادری نے پولیس اور انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پولیس نے لڑکی کی گمشدگی کے حوالے سےانکی رپورٹ درج کرانے میں بھی تاخیری حربے استعمال کیے۔ پولیس اور انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے مرکزی شاہراہ کو کئی گھنٹے بند رکھا گیا۔ ان مظاہرین نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور صوبائی حکومت سے سکھ لڑکی کی بازیابی کے حوالے سے تعاون کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ بونیرکی رہائشی مینا کماری نامی لڑکی گزشتہ چند دنوں سے غائب رہی جب وہ منظر عام پر آئی تو اُس نے اپنی شادی کا اعلان کردیا۔ اُس نے عدالت میں شادی کے بعد اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ''میں نے اسلامک اسٹیڈیز میں ماسٹرز کیا ہے اور مقامی اسکول میں ٹیچر ہوں میری عمر پچیس سال ہے اور پوری طرح اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے اسلام قبول کرکے مسلمان لڑکے سے شادی کی ہے۔‘‘ اس کا مزید کہنا تھا کہ اُس کے خاندان والے اُسے دارلامان بھیجنا چاہتے ہیں لیکن میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ ‘‘
مقامی پولیس کا کہنا تھا، ''ہفتے کے روز پیر بابا کے علاقے کا گور چرن میں لڑکی کے والدین نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی کہ انکی بیٹی جو مقامی اسکول میں ٹیچر ہے، چھٹی کے بعد گھر واپس نہیں آئی۔ اقلیتی برادری کے اصرار پر لڑکی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی گئی۔‘‘ تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ لڑکی نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ عاقلہ و بالغ ہے اور دین اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد مسلمان ہوئی ہے اور اُس نے حزب اللہ نامی مسلمان لڑکے سے شادی خود کی ہے، کسی نے انہیں اغوا نہیں کیا۔
اس واقعے کے بعد سکھوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور انہوں نے انتظامیہ سے لڑکی کی بازیابی کامطالبہ کیا۔ احتجاج کرنے والوں میں ڈاکٹر نلک سنگھ سے جب ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا، ''ابھی تک انتظامیہ کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔
مقامی جرگے کوپولیس نے یقین دلایا تھا کہ وہ لڑکی کو دارالامان بھیج دیں گے۔ احتجاجی مظاہرے کے دوران ڈاکٹر نلک سنگھ کا کہنا تھا کہ انکے ساتھ جو زیادتی ہوئی اسکے خلاف آواز اٹھانے کے لیے پورے ملک کے عوام اور بالخصوص سکھ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ سکھ بچی انتظامیہ کی ملی بھگت سے اغوا ہوئی ہے اسے ورغلایہ گیا۔ سکھ راہنما کا کہنا تھا، ''مینا کماری کو ہمارے حوالہ نہ کرنے کی صورت میں پورے ملک میں احتجاج کریں گے۔‘‘
مقامی سیاسی اور سماجی کارکنوں نے سکھ راہنماؤں کے ساتھ ملاقات کرکے انہیں ہر قسم کے تعاون کا یقین دلا یا اس یقین دہانی کے بعد سکھوں نے وقتی طور پر احتجاج مؤخر کردیا ہے ۔
مائینوریٹی رائیٹس فورم کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی کا کہنا تھا، ’’حکومتی ادارے سکھوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی حکومت سکھوں کو تحفظ فراہم کرے آج عدم تحفظ کی وجہ سے سکھ مرد و خواتین بونیر میں سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ لڑکی کو اغوا کرکے زبردستی اُس کا مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سمیت پشاور ،خیبر اور سوات میں بڑی تعداد میں سکھ کمیونٹی آباد ہے جن میں زیادہ تر تجارت اور حکمت سے وابستہ ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ضلع چارسدہ میں ایک سکھ حکیم کوقتل کیا گیا تھا۔
بونیر میں لڑکی کا مذہب تبدیل کرنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے جبکہ ضلع خیبر سمیت سوات، بونیر اور دیگر اضلاع میں بھی بدامنی کے دوران سکھ کمیونٹی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ضلع خیبر میں ان سے جزئیہ کے مطالبے پر درجنوں سکھ خاندان دیگر صوبوں کی طرف کوچ کر گئے۔ بونیر ہی میں ایک سابق رکن اسمبلی سورن سنگھ کو قتل کیا گیا تھا جس پر سکھ برادری انصاف کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔