چین کے سرکردہ مخالفین میں سے ایک پر 'می ٹو' کے الزامات

ڈی ڈبلیو نے تیانمن کے طالب علم رہنما وانگ ڈین کے خلاف جنسی زیادتی اور ہراساں کرنے کے دعووں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا پردہ فاش کیا ہے۔ ممتاز کارکن کو تائیوان میں مجرمانہ تحقیقات کا سامنا ہے۔

چین کے سرکردہ مخالفین میں سے ایک پر 'می ٹو' کے الزامات
چین کے سرکردہ مخالفین میں سے ایک پر 'می ٹو' کے الزامات
user

Dw

چین میں جمہوری تحریک سے تیانمن کے طالب علم رہنما وانگ ڈین کا جتنا قریبی ربط رہا ہے، اتنا قریبی تعلق شاید ہی کسی دوسرے چہرے کا ہو۔ چار جون سن 1989 کو پرتشدد کریک ڈاؤن کے نتیجے میں، جس میں بیجنگ کے لا تعداد باشندوں، کارکنوں اور طلباء کو ہلاک کر دیا گیا تھا، اس کے لیے، حکومت کو جو افراد سب سے زیادہ مطلوب تھے، ان میں پتلے دبلے 20 سالہ وانگ سر فہرست تھے۔

انہیں فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا تھا اور پھر انہوں نے اگلے نو برس زیادہ تر چینی جیل میں گزارے۔ سن 1998 میں بل کلنٹن کی انتظامیہ نے انہیں آزاد کر وایا تھا۔ تبھی سے وانگ نے چین میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے تعلق سے اپنی وکالت جاری رکھی اور جلاوطنی میں بھی تیانمن کی یاد کو محفوظ رکھا۔


تاہم تائیوانی شہری کے لی یوآن چن کے لیے، یہی چار جون سن 1989 کی برسی، نہ صرف تیانمن کے مظالم کو یاد کرتی ہے، بلکہ انہیں ایک ذاتی گہرا صدمہ بھی پہنچاتی ہے۔ جس دن وانگ نے نیویارک میں چار جون سے متعلق میموریل میوزیم کا افتتاح کیا، اس دن لی نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا، ''ہر چار جون، جس دن وانگ ڈین کو عوامی سطح پر خطاب کرنا پڑتا ہے، میں انتہائی ناگوار اور بے چین محسوس کرتا ہوں۔ مجھے اس آدمی سے ڈر لگتا ہے، اس کی آواز سننے اور اس کا چہرہ دیکھنے سے ہی خوف کھاتا ہوں۔''

تائیوان میں 'می ٹو' تحریک کے حالیہ اضافے سے حوصلہ پا کر لی نے فیصلہ کیا کہ اب انہیں بھی اپنی خاموشی توڑنے کا وقت آگیا ہے۔ انہوں نے فیس بک پوسٹ میں کھلے عام الزام لگایا کہ، چھ جون 2014 کی شام کو وانگ نے نیویارک کے فلشنگ میں ایک ہوٹل کے کمرے میں اس وقت کے 19 سالہ لڑکے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی۔


لی کا کہنا ہے کہ وانگ نے انہیں پیچھے سے زبردستی بوسہ دیا، بستر پر دھکیل دیا، اور اپنے کپڑے اتارنے لگے۔ خوف سے مغلوب اور یہ نہ جانتے ہوئے کہ کیا رد عمل ظاہر کرنے کے ضرورت ہے، لی بعد میں اپنی صحت کے بارے میں ایک کہانی گھڑ کر وانگ کی پیش قدمی کو روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ وانگ اس حرکت کے لیے عوامی سطح پر معافی کے مطالبے کا جواب دینے میں ناکام رہے اور پھر لی نے 54 سالہ رہنما کے خلاف ایسے مجرمانہ الزامات لگائے۔

لی کے الزامات سے چینی ڈائسپورہ اور تائیوان کے معاشرے میں صدمے کی لہریں دوڑ گئیں۔ وانگ جمہوریت کی تحریک کی علامت کے طور پر تائیوان میں یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اور عوامی مبصر کے طور پر قابل احترام بھی، تاہم اس کی وجہ سے وانگ کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ گئے۔ انہوں نے پھر دو جون کو ایک بیان جاری کیا، جس میں لی کے الزامات کی سختی سے تردید کی گئی اور یہ کہا گیا کہ چار جون سے قبل اس کہانی کو عام کرنے کا فیصلہ سیاسی مقاصد کے تحت کیا گیا ہے۔


بعد میں فیس بک پر ایک پوسٹ میں وانگ نے کہا کہ وہ مجرمانہ شکایت کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عدلیہ ''سچائی سے پردہ اٹھائے گی۔'' اس دوران تائیوان کی نیشنل تسنگ ہوا یونیورسٹی (این ٹی ایچ یو)، جہاں وانگ نے کئی برس تک پڑھایا ہے، نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا اور گزشتہ 13 سالوں کے اپنے طلباء سے رابطہ کیا۔ اس کی وجہ سے یونیورسٹی نے ان کے ایک مجوزہ خصوصی لیکچر کو بھی منسوخ کر دیا۔

ایک ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر، ڈی ڈبلیو نے نئی شہادتیں اور پہلے نامعلوم افراد کی جانب سے الزام لگانے والوں کا پتہ لگایا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ لی یوان چن کا تجربہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح کا دیگر الزام لگانے والوں میں سے کم از کم ایک شخص نے اپنے کیس کی اطلاع یونیورسٹی میں صنفی مساوات سے متعلق کمیٹی کو بھی دی ہے۔


33 سالہ کے نامی شخص نے ڈی ڈبلیو کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اس نے دوسروں کی حفاظت کے لیے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا، ''میں نہیں چاہتا کہ مزید افراد بدی کا نشانہ بن جائیں۔'' کے اس وقت 22 سال کے تھے جب وانگ نے پہلی بار فیس بک کے ذریعے ان سے رابطہ کیا۔ اس وقت، وانگ ڈین تائیوان کے سیاسی ٹاک شوز میں اکثر مہمان ہوا کرتے تھے، ایک ایسی عوامی شخصیت جس سے سماجی انصاف کے مسائل میں دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی طالب علم واقف ہو گا۔

کے کا کہنا ہے کہ وہ حیران تھے کہ وانگ نے ان سے رابطہ کیا، تاہم دوستی کی درخواست خوشی سے قبول کر لی۔ لیکن فوری بعد وانگ نے یہ بھی بتا دیا کہ وہ سیاست پر بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور اس کے بجائے وہ بات چیت کو قریبی تعلقات بنانے کی طرف موڑ دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لکھتے، ''فیس بک میسنجر آرام کرنے کی جگہ ہے، آئیے کچھ اور پرائیویٹ بات کرتے ہیں۔''


فروری سن 2014 تک ان کی ایسی بات چیت کبھی کبھی ہوتی رہی لیکن پھر وانگ کے پیغامات زیادہ تیز ی سے آنے لگے۔ کے کہتے ہیں، ''وہ مجھے اپنے اپارٹمنٹ میں آنے کے لیے اکساتے رہے، جان بوجھ کر وہ اس کے لیے رات کے نو بجے کا وقت مقرر کرتے، اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ مجھے رات وہیں گزارنی چاہیے۔''

کے اس وقت تائیوان کی سب سے باوقار یونیورسٹیوں میں سے ایک میں گریجویٹ کے طالب علم تھے۔ وانگ کی انتھک دعوتوں کے باوجود کے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے گفتگو کو مختلف موضوع کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کرتے۔ جب کے نے اس بات پر استفسار کیا کہ کیا وانگ کا سابق پارٹنر بھی ان کا شاگرد ہی تھا، تو وانگ ڈین نے اس کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے لکھا، ''آپ میرے طالب علم نہیں ہیں، اس لیے یہاں کوئی اخلاقی مسئلہ بھی نہیں ہے۔''


کے کی چاہت تھی کہ وہ وانگ کے گھر جا کر تیانمن سے متعلق کچھ خفیہ دستاویزات یا ریکارڈنگ دیکھ سکیں گے، تاہم انہیں اس پر مایوسی ہاتھ لگی۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر اس میں سے کچھ بھی نہیں دیکھا، جس کی توقع کی تھی۔ ''وہاں پہنچنے کے بعد مجھے کچھ زیادہ یاد نہیں ہے، بس یہ کہ وہ مجھے شراب پر شراب، بیئر اور ریڈ وائن، دونوں ہی پلاتے رہے۔'' نشے میں دھت ہو کر ہوش کھونے کے بعد اگلی چیز جو یاد آتی ہے وہ وانگ ڈین غصے سے اپارٹمنٹ کی صفائی کر رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں۔ ''اس نے مجھے نشے میں دھت رہنے اور پورے بستر پر الٹیاں کرنے پر مارا۔ وہ بہت غصے میں تھا۔ اس کے بعد کے نے الزام لگایا کہ وانگ نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ واقعے کے دوران بہت زیادہ نشے میں تھے اور تفصیلات کے بارے میں ان کی یادداشت دھندلی ہے۔ انہیں یہ بھی یاد نہیں ہے کہ وہ اگلے دن گھر کیسے پہنچے۔ تاہم انہیں غصے میں وانگ ڈین کا ''خوف'' محسوس کرنا یاد ہے اور یہ کہ ''کنڈوم لگاتے ہوئے اسے میں نے اپنے اوپر دیکھا تھا۔'' کے نے ایک طویل عرصے تک اپنے اس تجربے کو ایک ''خراب جنسی عمل'' کے طور پر معقول بنانے کی کوشش کی۔ لیکن جب بالآخر اس نے اپنے تجربے کے بارے میں بات کی، تو اس کی حمایت کے بجائے اس کا مذاق اڑایا گیا۔ اس کے اس وقت کے ساتھیوں نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔


وانگ ڈین کا چونکہ چین سے متعلق جمہوری تحریک سے رابطہ رہا ہے، اس لیے متاثرین کے لیے یہ عنصر بھی تشویش کا باعث رہا کہ کہیں ان کے خلاف جنسی بد سلوکی کے الزامات سے چینی جمہوریت کی تحریک کی کوششوں کو نقصان تو نہیں پہنچ سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اس بارے میں وانگ کے پرسنل اسسٹنٹ اور ایک طویل مدتی واقف کار رتھ سے بات کی، جنہوں نے جاپان کے کئی دوروں پر وانگ کو اپنے دو دوستوں کو ہراساں کرتے دیکھا تھا۔ انہوں نے وانگ کے خلاف عوامی الزامات لگانے کی مشکلات کی وضاحت کی۔

ان کا کہنا ہے کہ ''وہ وانگ کا احترام کرتے ہیں، اس لیے وہ مزاحمت کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ان سے پوچھیں تو وہ ان کی اس طرح کی پیشقدمی سے مطمئن نہیں ہیں۔ میرے دونوں دوستوں نے بھی اپنی تکلیف کا اظہار کیا اور اگر کوئی انتخاب دیا جائے تو وہ بھی اس طرح کے رویے کا نشانہ نہ بننے کو ترجیح دیں گے۔''


سن 2014 میں وانگ نے اپنے ایک معاون ہسیہ کے ساتھ اوساکا کا سفر کیا، جہاں رتھ نے وانگ کے ساتھ زیڈ نامی ایک شخص کے ساتھ ہوٹل کا کمرہ شیئر کرنے کا بند و بست کیا۔ رتھ کو یاد ہے کہ زیڈ وانگ سے ناواقف تھے اور اس طرح کے بند و بست سے حیران بھی۔ بعد میں زیڈ نے رتھ کے سامنے اس بات کا انکشاف کیا کہ وانگ نے اسے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔

متعدد آزاد ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وانگ ڈین اپنے طالب علموں کے ساتھ غیر معمولی طور پر فراخ دل ہیں۔ وہ باہر جانے، کھانے، مشروبات اور رات کے قیام کا بل خوشی سے ادا کرتے ہیں۔ تاہم طلبہ کے ساتھ ان کی کچھ حرکتوں سے کئی طرح کے سوال بھی اٹھتے رہے ہیں۔


وانگ کے ایک سابق طالب علم فانگ ہاؤ (نام بدلا ہوا) نے نوٹ کیا، ''ہم سب ایک ساتھ بیٹھیں گے، اور وانگ اپنے پسندیدہ مرد طالب علم کے لیے ایک 'خصوصی نشست' مختص کریں گے۔ میں اس بات کا تعین نہیں کر سکتا تھا کہ یہ ان کی کسی طالب علم سے خاص محبت، کسی خاص طالب علم کے لیے خصوصی دیکھ بھال، یا ممکنہ طور پر ایسی رومانوی دلچسپی کی وجہ سے ہے؟''

رتھ نے یہ بھی کہا کہ وانگ کچھ عرصے سے نوجوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے لیے چینی جمہوریت کی تحریک کے اندر اپنے نمایاں مقام کا غلط استعمال کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس نے، اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ اس کا رویہ قابل قبول ہے، ایک بری عادت پیدا کر لی ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔


رتھ نے اس بات پر زور دیا کہ چینی جمہوریت کی تحریک ایک فرد سے کہیں زیادہ اوپر ہے: ''چینی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف لڑائی صرف وانگ ڈین پر ہی منحصر نہیں ہے۔'' تازہ ترین الزامات پر تبصرے کے لیے جب وانگ ڈین سے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے اپنے خلاف جاری قانونی کارروائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اس پر بات کرنے سے منع کردیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔