زمانے اب ترے مد مقابل، کوئی کمزور سی عورت نہیں ہے
پاکستان میں بچہ گود لینا کوئی آسان کام نہیں اور سنگل مدر کے لیے تو یہ مراحل اور بھی پیچدہ ہو جاتے ہیں۔ اگر قوانین کو سہل بنا دیا جائے تو شاید بہت سے لاوارث بچوں کو گھر اور والدین مل جائیں۔
لیڈی ڈاکٹر کے انکشاف نے مجھے دل گرفتہ اور اداس کر دیا تھا۔ یعنی میں کبھی ماں نہیں بن پاؤں گی؟ میری زندگی کی تو سب سے بڑی تمنا ہی 'ماں‘ بننا تھا۔ کئی راتیں بستر پر روتے اور کروٹیں بدلتے بیتیں اور آخرکار ایک ایسی ہی رات میں نے بچی گود لینے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔
ایک خود مختار، پڑھی لکھی اور بین الاقوامی ادارے میں برسوں اعلی عہدوں پر کام کرنے کی وجہ سے اندازہ تو ضرور تھا کہ اس سماج میں عورت ''سنگل مدَر‘‘ کی حیثیت سے بچہ گود لینے کے لیے کن کن مشکلات اور مصائب سے گزرے گی۔ لیکن مشکلات کی نوعیت اتنی شدید اور تکلیف دہ ہوگی یہ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔
آبائی شہر لاہور اور اسلام آباد کی رہائشی ہونے کے باوجود ان دونوں شہروں میں کوئی بھی ایسا ادارہ یا ہسپتال موجود نہیں تھا، جو اکیلی ماں کے لیے بچہ گود لینے کی سہولت فراہم کرتا ہو، جہاں بھی درخواست بھیجی وہ پیپرورک میں ابتدائی مرحلے میں ہی رد کر دی گئی۔ اس لیے کراچی جانے کا قصد کیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن جیسا ادارہ پاکستان جیسے گھٹن زدہ ملک میں ایک ٹھنڈی ہوا کاجھونکا ہے۔ کراچی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے علاوہ ''امکان ویلفیئر اورگنائزیشن‘‘ بھی قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سنگل مدَر کو بچہ گود لینے میں مکمل تعاون فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کی انتظامیہ نے بنا کسی حیل و حجت کے مجھے تمام تفصیلات فارم میں بھرنے کا طریقہ کار سمجھایا اور مجھے کچھ عرصہ انتظار کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ میری خواہش تھی کہ نومولود بچی ہی گود لوں گی۔ دو ماہ کے طویل انتظار کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن سے کال آئی کہ فوراﹰکراچی پہنچیں، ایک نومولود بچی کی ماں کا ڈلیوری میں انتقال ہو گیا ہے اور باپ غربت کے وجہ سے بچی پالنے کی سکت نہیں رکھتا۔
میں نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بنا اپنی فلائٹ بُک کروائی اور چند ہی گھنٹے بعد میں ایدھی ہوم میں بیٹھی بچی گود لینے کی کارروائی مکمل کر رہی تھی۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے توسط سے بچہ گود لینے کا عمل بہت مربوط اور شفاف ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ میری شادی ہوئی ہے یا نہیں، شوہر کون تھا؟ طلاق کیوں ہوئی؟ یا اکیلےکس طرح بچہ گود لے سکتی ہوں وغیرہ وغیرہ۔
انہیں صرف اس بات کی ضمانت درکار تھی کہ آیا میں سماجی، نفسیاتی اور مالی اعتبار سے ایک بچی پالنے کی اہل ہوں یا نہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن سے بچی گود لینے کی کارروائی ایک ہفتے چلی۔ دوسرا مرحلہ سندھ ہائیکورٹ سے اجازت نامہ حاصل کرنا تھا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا ایک کارکن قانونی چارہ جوئی کے دوران میرے ساتھ ہمہ وقت موجود رہا۔ سندھ ہائیکورٹ کا رویہ سنگل مدَر کے حوالے سے بے حد مثبت اور غیرجانبدارانہ رہا۔ ایک بار بھی مجھ سے سوشل اسٹیٹس کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا گیا۔
بے شک یہ مراحل طویل اور تھکا دینے والے تھے لیکن کراچی میں کسی بھی ادارے کی جانب سے مجھے ہتک آمیز رویے کا سامنا ہرگز نہیں پڑا، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ سندھ پاکستان کا ابھی بھی روشن خیال خطہ ہے۔ پاکستان میں گود لینے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ بچے کو صرف سرپرستی میں لینے کا 1890ء کا قانون موجود ہے۔ اس لیے میرا نام بھی فارم میں سرپرست کے طور پر لکھا گیا۔ تقریباً ایک ماہ کراچی میں تمام قانونی کارروائی کے بعد جب میں بخیر و خوبی بچی کو اسلام آباد لے آئی تب مزید ایک اور تکلیف دہ صورتحال میرے انتظار میں تھی۔
تیسرا مرحلہ نادرہ آفس سے بچی کے ''بے فارم " کی حصولی تھی۔ کئی دن کی مغز ماری اور خواری کے بعد جب بےفارم میرے ہاتھ آیا تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ کئی روز کی بھاگ دوڑ کے باوجود بے فارم پر ولدیت کے خانے میں فرضی نام موجود تھا۔ جبکہ کارروائی کے دوران نادرہ کی انتظامیہ کو میں بارہا حتمی طور پر بچی کے باپ نہ ہونے کا بتا چکی تھی اور سارے فارموں پر میں اپنا اسٹیٹس سنگل ہی لکھتی آئی تھی۔
میرے استفار پر نادرہ والوں نے مجھ سے ولدیت کی اہمیت پر لیکچر دینے شروع کر دیے۔ میں نے اپنی پوری توانائی انہیں سمجھانے پر صرف کر دی کہ جناب میں ایک انٹرنیشنل ادارے میں کام کرتی ہوں اور اگلے ہفتے میں اپنی بچی کے ہمراہ بیرون ملک سفر کر رہی ہوں۔ ولدیت کے خانے میں فرضی نام پر مجھے ایئرپورٹ پر ہی دھر لیا جائے گا اور ہیومن ٹریفکینگ کا الزام الگ لگے گا۔ لیکن ان کے کان پر تو جوں بھی نہ رینگی۔۔ لیکن میں شدت جذبات سے بے اختیار ہو کر رونے لگی کیونکہ اب تک میں سارے مراحل قانون کے مطابق طے کرتی آئی تھی اور اب اس مرحلے پر ہمت جواب دینے لگی تھی۔ اس وقت میرے والدین ہی میری ہر مشکل گھڑی میں میرے شانہ بہ شانہ کھڑے تھے۔ انہی کے مشورے پر میں نے نادرہ کے اعلی عہدوں پر فائز افراد کو جلدی جلدی فون کیے، جن کے ساتھ میں نے کئی برس پہلے مختلف پراجیکٹس پر کام کیا تھا۔
انہوں نے بذات خود میرے کیس کی جلد از جلد جانچ پڑتال کرنے کی ہامی بھری اور ایک ہفتے کی بھاگ دوڑ کے بعد مجھے بچی کا بے فارم بنا ولدیت اور سنگل مدر کی حیثیت سے بالآخر حاصل ہو گیا۔ المیہ دیکھیے کہ میرے جیسی پڑھی لکھی، خودمختار اور صاحب استطاعت عورت کو اتنے کٹھن حالات سہنے پڑے توذرا سوچیے کہ غریب، ان پڑھ خواتین کے ساتھ کیسے رویے روا رکھے جاتے ہوں گے۔ ہمارے سماج میں عورت ہونا ہی سب سے بڑا جرم ہے اس پر طرہ یہ کہ وہ اکیلی ماں بننے چلے!!
جس ملک میں آبادی دن بدن بڑھ رہی ہو، وہاں یتیم اور نادار بچوں کو گود لینا ایک اچھا عمل نہیں؟ ان اقدام کی حوصلہ افزائی کرنا تو ایک طرف بلکہ ہمارا سماج ایسے کسی بھی فعل کو ناقابل عمل بنانے کی سعی پوری شدومد سے کرتا ہے۔
کہانی یہاں تمام نہیں ہوتی۔ میں آج اپنی پانچ سالہ بیٹی کے ساتھ بیرون ملک رہائش پذیر ہوں اور ایک اعلی عہدے پر فائز بھی۔ ہر دوسرے سال بیٹی کے ساتھ پاکستان کا سفر کرتی ہوں۔ جب بھی آتی ہوں مجھ سے سنگل مدَر ہونے پر آج بھی لوگ بلاجواز سوالات ضرور کرتے ہیں۔ ناصرف رشتہ دار بلکہ گھر میں کام میں ہاتھ بٹانے والی ماسی تک مجھ سے میری بیٹی کے سامنے تیکھے اور چبھتے سوال کرنے سے باز نہیں رہتی۔ میں حتی الامکان ایسے سوالات نظر انداز کرتی رہی ہوں۔ بقول شاعر!
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
لیکن اکثر ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ کیوں سمجھا جاتا ہے کہ بنا مرد کے عورت کا گزارہ نہیں یا وہ بچے پالنے کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتی؟ ذرا اپنے آس پاس نظر دوڑائیں آپ کو کئی ایسی مضبوط اعصاب والی عورتوں نظر آئیں گی، جو مردوں کے ہوتے ہوئے بھی کھیتوں کھلیانوں، گھروں، دفتروں میں کام کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں۔
جس ملک میں ہر پیدا ہونے والا بچہ تقریباً ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو، جہاں بچوں کی تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کا فقدان ہو، جہاں آج بھی پولیو جیسی بیماری کا وجود ہو، جان ارزاں ہو تو وہاں آبادی کی روک تھام کے لیے قوانین کیوں نہیں بنائے جاتے؟ اوربچوں کو گود لینے کے قانون اور مراحل کو نسبتاً ایک آسان عمل میں تبدیل کیوں نہیں کیا جاسکتا؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔